مقرر ہیں ، شریعت مطہرہ نے ان کی اجازت دی ہے ،ان طریقوں کو سختی سے اپنانے کی ضرورت ہے ۔ٹی ۔ وی کے دینی پروگرام بھی دیکھنے والے لہوو لعب کے انداز سے ہی دیکھنے کے عادی ہیں ، امور محرمہ سے اسے پاک صاف کردینا تقریباً ناممکن ہے ، اس لئے اس کے استعمال کو دینی پروگرام کیلئے بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
٭٭٭٭٭
یہ فتویٰ بالکل صحیح ہے ، مگر اخبار نے اس کا تماشا بنادیا ہے ، دینی احکام وتعلیمات کی تبلیغ اور اس کی نشر واشاعت کا ایک خاص مزاج ہے ۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ دین اور دینی تعلیمات ایک مقدس اور پاکیزہ اور نہایت سنجیدہ امر ہے ، لہوو لعب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ اس کی نسبت اﷲ اور رسول کے ساتھ ہے ، اس کا ایک خاص ادب واحترام ہے ۔ ادب واحترام کے اس حصار کو اگر توڑ دیا جائے ، تو ظاہری شکل چاہے دین کی رہ جائے مگر اصل روح غائب ہوجائے گی ۔ حق تعالیٰ کاا رشاد ہے :
ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (سورہ حج ، ۳۲ )
جو اﷲ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے ، تو یہ قلب کے تقویٰ کا اثر ہے ۔
دینی پروگراموں کو خواہ ٹی ۔ وی پر لائیں ، ریڈیو پر لائیں ، یا انٹر نیٹ پر لائیں ، سب سے پہلے ان کا احترام وتقدس غائب ہوتا ہے ، اور یہ بات ایسی نہیں ہے جس پر کسی دلیل کے قائم کرنے کی ضرورت ہو ۔ ہاں اگر تقدس واحترام کا مفہوم ہی بدل دیا جائے ، یا اس کو لغو وفضول چیز قرار دے دیا جائے تو بات دوسری ہے ۔ اور دنیاداری کے غلبہ اور آخرت فراموشی کے اس دور میں یہ تماشا بھی بہت عام ہوچکا ہے ۔ اکبر کے زمانے میں یہ صورت حال رہی ہو یا نہ رہی ہو ، مگر اب تو کھلے بندوں یہ تماشا ہورہا ہے کہ ؎
رقیبوں نے رَپٹ لکھوائی ہے جاجاکے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
خدا کا نام فیشن کے طور پر تو لیا جاتا ہے ، مگر آخرت کا نام لینا، اور دنیا کو بے وقعت