یہ ایک گھر کا واقعہ نہیں ۔ ہر وہ دیندار گھر جس میں کسی مجبوری کی وجہ سے ٹی ،وی ، ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ استعمال کیا جاتا ہے ، ہر گھر کا یہی قصہ ہے ۔ اور جہاں اتنی سی بھی دینداری کی فکر نہیں ہے ، وہاں تو قرأت ونعت کی گنجائش ہی نہیں !
جن چیزوں کے یہ لچھن ہوں ۔ ان کے بارے میں دین اسلام سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ان کے جواز کا فتویٰ دے گا ، خوش فہمی ہے ۔ دین اسلام کا راستہ اور اس کی منزل الگ ہے ، اور کفر وشرک کا راستہ اور اس کی منزل علیٰحدہ ہے ۔ دونوں کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے ۔ ہر وہ چیز ، جو مسلمان کو اس کے دین سے ، فکر آخرت سے زہد وقناعت سے برگشتہ کرے۔ اس سے اجتناب لازم ہے ، خواہ وہ دنیاوی ترقی کیلئے کتنی ہی ضروری اور بھلی معلوم ہو ۔
اب فتنے کی طغیانی ملاحظہ ہو ۔
روزنامہ سہارا کی ۲۲؍ اگست ۲۰۰۴ء بروز اتوار کی اشاعت میں دارالعلوم دیوبند سے جاری شدہ ایک فتویٰ کو مشق ستم بنایا گیا ہے ۔ اس کی تمہید میں مذکورہ اخبار نے لکھا ہے کہ :
’’دینی پروگرام کی نشر واشاعت کے لئے ٹیلی ویژن کا استعمال شرعی ہے یا غیر شرعی ، اس مسئلہ پر دارالعلوم دیوبند نے گزشتہ دنوں ایک سوال کے جواب میں فتویٰ جاری کیا جس میں ٹیلی ویژن کو ایک آلۂ لہوو لعب قرار دیتے ہوئے اس کے استعمال کو انتہائی قبیح بتایا گیاہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کا فتویٰ پہلی بار آیا ہے ، اس سے قبل دارالافتا ء ڈابھیل ، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے فتوے آچکے ہیں ۔