ریڈیوہو یا ٹی ،وی۔ انٹر نیٹ ہو یا وی ، سی ، آر ۔ دینی نقطۂ نظر سے کو ئی صاحب غور کرلیں کہ ان کے استعمال میں شر کا عنصر کتنا ہے اور خیر کا جز کتنا ہے ؟ جن کے نزدیک گانا بجانا ، عورتوں کے نغمے سننا ، ناچ گانے والی عورتوں سے دلچسپی لینا ، عریانیت وفحاشی میں گھسے رہنا ، ہر جھوٹ اور لغو کا سننا اور اس میں مشغول رہنا تصویروں کا دیکھنا اور انھیں گھروں میں رکھنا ، کوئی عیب نہ ہو ، وہ ہمارے اس مضمون کے مخاطب نہیں ہیں ۔ اور نہ اسلام کو ان سے کوئی مطلب ہے ۔ بات ان لوگوں کی ہے ، جو اسلام کی حرام کردہ چیزوں کو حرام مانتے ہیں ، بتایا جائے کہ ان کے نزدیک ان چیزوں کے استعمال میں شر کتنا ہے ، اور خیر کتنا ہے ؟
لوگ صحیح استعمال کی بات کرتے ہیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ آج کتنے سلیم الطبع اور تربیت یافتہ لوگ ملتے ہیں ، جو ریڈیو اور ٹی ، وی میں صرف سنجیدہ پروگرام دیکھتے اور سنتے ہوں اور اگر کوئی اکا دکا آدمی ایسا مل بھی جائے ، تو اس کے گھر میں بچوں اور عورتوں کا راستہ کون سا ہوگا ؟
میں اور جگہ کی بات نہیں کرتا ، مکہ شریف جیسی مقدس سرزمین میں ایک عالم دین جو ماشاء اﷲ حدیث شریف کی خدمت میں ممتاز ہیں ۔ وہ اس بندے کو اپنے گھر لے گئے ۔ اس وقت ان کے اہل وعیال اپنے وطن ہندوستان آئے ہوئے تھے ۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو ٹیپ ریکارڈ سے نعت شریف سنواتاہوں ۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہے ، میں نے معذرت کی ، انھوں نے بے تکلفی میں اصرار کیا ۔ اور بہت سی کیسٹیں اُٹھالائے ۔ کم از کم تین چار درجن ! اور فرمایا کہ ہمارے گھر صرف نعت اور قرأت کی کیسٹیں ہیں اور وہی سنی جاتی ہیں ۔ گانے بجانے سے بالکلیہ احتراز ہے ، وہ یہ کہتے کہتے ایک کیسٹ ٹیپ میں لگانے لگے ، میں نے منع بھی کیا ۔میرے نہیں نہیں کہتے کہتے انھوں نے لگاہی دی ۔ اب جو آواز آئی تو نسوانی آواز تھی اوروہ فلمی گانا گارہی تھی گھبرا کر انھوں نے دوسری لگائی ۔ وہ بھی اسی رنگ میں تھی ، پھر وہ کیسٹ بدلتے رہے ، مگر رنگ نہیں بدلا ۔ میں نے عرض کیا جانے دیجئے ۔ نعت وقرأت کی کیسٹ وطن گئی ۔ وہاں ان کیسٹوں کی گنجائش نہ تھی، یہاں صرف گانے کی کیسٹیں ہیں ۔