کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان لوگوں کا سب سے پہلا وار جمہور امت پر پڑتا ہے ، کہ ان کی رگ کاٹ دی جائے توانفرادیت کا راستہ صاف ہوجائے۔
ہم اس دور میں عرصہ سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ جو کوئی حوصلہ مند اور ذہین ہوا ، اس کے پیٹ میں پہلے یہی درد اٹھتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کیوں نہیں کرتے ، پھر وہ الٹے سیدھے نظریات وضع کرتا ہے ،اور ان پر ایسا اصرار کرتا ہے کہ جیسے اگر انھیں نہ تسلیم کیا جائے تو اسلام کی عمارت ہی منہدم ہوکر رہ جائے گی ، ایسے لوگوں سے ہمیشہ چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے ، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی ؎
اے بسا ابلیس آدم روئے است
مگر عمومی طور پر سطحیت بڑھ گئی ہے، جہاں کوئی نیا نعرہ لگتا ہے ، ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ہے۔
ابن ماجہ ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ انے فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ (آٹے کی طرح) چَھن جائیں گے ، اور صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے ، جو بھوسی کے مانند ہوں گے ۔ ان کے عہد اور ان کی امانتیں فاسد ہوکر رہ جائیں گی ، اور آپس میں وہ اس طرح گتھ جائیں گے ، جیسے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم گتھ جاتی ہیں ، فرمایا کہ اس وقت تم لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جب ایسا ہو تو یا رسول ا ﷲ ہم کیا کریں ؟ آپ انے فرمایا کہ :
تاخذون ماتعرفون وتدعون ماتنکرون وتقبلون علیٰ خاصتکم وتذرون أمر عوامکم ( کتاب الفتن)
جو تمہاری جانی پہچانی چیزیں ہیں ،ا نھیں لے لو اور اجنبی ونامانوس باتوں کو چھوڑدو ، اور اپنے خاص لوگوں پر توجہ دو ، اور عوام کے معاملہ کو ترک کردو، یعنی ان کا زیادہ اہتمام نہ کرو۔
دین کی فکر کرنے والوں کے لئے اس حدیث میں بصیرت کا بڑا سامان ہے ، دین کا معاملہ بہت اہم ہے ، آخرت میں اور دنیا میں مدارکار اسی پر ہے ، آج رنگ رنگ کے اہل قلم