تھی وغیرہ وغیرہ۔
جن لوگوں کو اﷲ کی طرف سے دین کی صحیح بصیرت عطا ہوئی ہے ، اورانھیں معرفتِ الٰہی کا نور نصیب ہوا ہے وہ اپنی فراستِ ایمانی سے دل کے اس مخفی چور کو بھانپ لیتے ہیں ، مگر چور نے جو دینی رنگ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اس کو دیکھ کر وہ ہچکچاتے ہیں ، عام نگاہیں صرف یہی لبادہ دیکھتی ہیں ، اگر ان کی حقیقت واضح کی جائے تو ناواقف لوگ بھڑک اٹھیں گے ۔ اسی گو مگو میں عرصہ تک وہ پڑے رہتے ہیں اور گمراہی عام ہوتی رہتی ہے۔
انفرادیت کے اس جذبے اور لوگوں سے اپنی پیروی کرانے کی ہوس نے نہ جانے کتنی قیامتیں برپا کی ہیں ، ہم کسی فرد یا تحریک کے بارے میں قطعیت اور بالکل یقین کے رنگ میں تو اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے ، تاہم زمانہ ’’ صیرفی ٔ کائنات ‘‘ ہے ، ایک عرصہ تک تجربہ کرتے رہنے سے ، سرد وگرم احوال میں دیکھتے اور پرکھتے رہنے سے ، نیز نوائب وحوادث کے الٹ پھیر میں ، دلوں کی نیتیں زبان وعمل میں ظہور کرنے لگتی ہیں ،اور بالآخر زمانہ فیصلہ کردیتا ہے کہ کون سی تحریک اور کون سا فرد کس نیت کو لے کر کھڑا ہوا تھا ۔
ہمارا دین عقلی اور قیاسی تیر ،تکّوں کی بنیاد پر نہیں ہے ، اس کی بنیاد تعامل وتوارث اور طبقۃً بعد طبقۃٍ نقل وروایات پر ہے، اور امت کا سوادِ اعظم جس کی تعبیر جمہور علمائِ امت سے کی جاتی ہے ، وہ کبھی کسی مسئلہ پر قطعی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوسکتا۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا کہ : إن امتی لاتجتمع علیٰ ضلالۃ فإذا رأیتم اختلافاً فعلیکم بالسواد الاعظم (کتاب الفتن) میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی ، لہٰذا تم جب باہمی اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم کااتباع کرو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کے مسلک کی پیروی اور ان کی راہ کو اختیار کرنا فرمانِ رسول کی تعمیل ہے ، جو لوگ اپنی انفرادی رائے پر زور دیتے ہیں یا کسی مختلف فیہ مسئلہ میں کسی ایک رائے کو قطعی طور پر حق وصواب قرار دے کر دوسری جانب کو بالکل غلط اور گمراہی قرار دیدیتے ہیں ، یہ لوگ جمہور کے طریقے سے انحراف کرکے رسول اﷲ اکے حکم