کا فیصلہ ہے کہ جو چیز گندی ہے ، وہ بظاہر کیسی ہی خوشنما اور مفید معلوم ہو ، گندی ہی رہے گی ۔
آج کل ان فتنوں کی بارش بہت بڑھ گئی ہے ، کوئی آنکھ ، کوئی کان ، کوئی دل ایسا نہ ملے گا ، جس پر فتنوں کی برسات نہ ہورہی ہو ، جتنے ذرائع اِبلاغ بڑھتے جارہے ہیں ، اتنے ہی فتنے بڑھتے جارہے ہیں ۔ اور جتنی تیز رفتار سواریاں بڑھ رہی ہیں ،اتنی ہی برق رفتاری سے فتنے ترقی کررہے ہیں ، ایک زمانہ تھا کہ خاص خاص جگہوں میں ناچ گانے کی بزم سجائی جاتی تھی ، ان میں خاص خاص لوگ شرکت کرتے تھے ، پھر سنیما کی ایجاد نے اس میں عموم پیدا کیا ، اب ناچ گانا عام ہوگیا ، لیکن پھر بھی ایک مخصوص عمارت تک جانا پڑتا تھا ۔ کتنے لوگ معاشرے کی شرم کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے ، پھر ایجاد کرنے والوں نے ہاتھ میں ریڈیو تھمادئے کہ جب چاہو گانا سنو ! مگر نگاہیں محروم تھیں ، پھر ٹی ، وی نے باقی کسر پوری کردی ۔ اب جہاں چاہئے سنیما ہال بنالیجئے ۔ اور اس طرح موجودہ معاشرہ کی بیشتر خرابیوں کا سرچشمہ یہی ٹی ، وی ہے ۔ گانے بجانے ، شراب وکباب ، مار دھاڑ ، قتل وخونریزی ، چوری اور غارت گری کون سا ایسا جذبۂ فساد ہے ، جو ٹی ،وی کے اسکرین سے دل ودماغ کی شریانوں میں پیوست نہیں ہوتا اور انسان کے رگ وریشہ میں نہیں دوڑتا ۔ بچوں سے لیکر جوان اور بوڑھے تک سب ٹی، وی کے اسکرینوں کی نقالی میں تھرکتے ، ناچتے ، کودتے اور عجیب وغریب حرکات میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے ، جس کا انکار بجز ان لوگوں کے اور کوئی نہیں کرسکتا ، جنھوں نے حقائق سے آنکھوں کو بند کرنا ہی اپنا شیوہ بنا رکھا ہو ، یہ تسلیم کہ ٹی ، وی اور ریڈیو پر خبریں نشر ہوتی ہیں ، بجا کہ بعض اچھی معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں ، ماناکہ اس کے ذریعے تجارت کا فروغ ہوتا ہے ۔ مگر پوچھئے کہ یہ خبریں انسانیت کی کون سی خدمت انجام دیتی ہیں ، کیا ان خبروں میں سیاسی بازی گری نہیں ہوتی ، کیا یہ خبریں جھوٹ کو سچ نہیں بناتیں ، کیا یہ خبریں سچائی کی آنکھ میں دھول نہیں جھونکتیں ، کیا یہ خبریں سن سن کر انسان ’’ٹینشن ‘‘میں نہیں مبتلا ہوتا ، کیاا ن خبروں کے نتیجے میں معاشرہ بے تحاشا فساد ات وخونریزی میں تہ وبالا نہیں ہوتا ؟ پھر یہ بھی دریافت کیجئے کہ یہ اچھی معلومات جو ریڈیو اور ٹی ، وی سے