میں غالباً دس پندرہ کلومیٹر تک جائزہ لیا ، اور ۸۳؍ گاؤں کی رپورٹ مرتب کی ۔ نام بنام پوری رپورٹ شائع کرنی تو باعث طوالت ہے ۔ ایک اجمالی جائزہ ملاحظہ ہو ۔
ان میں ۳۶؍ گاؤں ایسے ہیں ، جن میں مسلمانوں کے گھر دس سے کم ہیں ، ۲۷؍ گاؤں ایسے ہیں ، جن میں ۱۰؍ اور ۲۰؍ کے درمیان مسلمانوں کے گھر ہیں ۔ ۹؍ گاؤں وہ ہیں جن میں مسلمانوں کے گھر ۲۰ اور ۳۰ ؍ کے درمیان ہیں ، ۶؍ ایسے گاؤں ہیں جن میں مسلمانوں کے گھر ۳۰؍اور ۴۰؍کے درمیان ہیں ، ۳؍ گاؤں میں مسلمانوں کے گھر ۴۰؍ اور ۴۵؍ کے درمیان ہیں ۔ ایک گاؤں میں ۱۰۰؍ گھر ، ایک گاؤں میں ۲۰۰گھر ، ایک گاؤں میں ۳۰۰ گھر اور بس۔
پھر ان ۸۳؍ گاؤں میں ۴۸؍ گاؤں ایسے ہیں جن میں ایک یا دو مسجدیں ہیں ۔ اور ۲۹؍ گاؤں میں معمولی مکتب کا نظم ہے ، جو لشٹم پشٹم چلتے ہیں اور بند ہوتے ہیں ۔ بعض گاؤں میں مسجدوں میں تعلیم کا ہلکا پھلکا نظم ہے ۔ غرض یہ کہ تعلیم کا دِیا علاقہ کے تقریباً ایک تہائی حصہ میں جلتا تو ہے ، مگر ٹمٹماتا اور جھلملاتا ہوا ، جہل کے سائے نہایت دبیز ہیں ، مسلمان عام طور سے غیر مسلموں کے معاشرے میں دبے ہوئے ہیں ، کفر وشرک کی نہ جانے کتنی رسمیں ان میں جاری ہیں ، اور بہت سے لوگ بدعات میں گرفتار ہیں ، شراب خوری ، بدچلنی ، آوارگی اور جھگڑے فساد کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں ، علم کا فقدان ، جہالت کا طوفان ۔مرد وعورت سب ایک رنگ میں رنگین ، ان لوگوں میں دین کی تعلیم کو جمانا ، اور انھیں دینی اعمال پر لانا ایک بڑا مجاہدہ ہے ۔
ان کے سامنے صرف کھانا کمانا ، شادی بیاہ کرنا ، جینا اور مرجانا ہی زندگی کی کل کائنات ہے ، ان جگہوں پر نہ علماء پہونچ پاتے ہیں اور نہ تبلیغی جماعتیں پہونچتی ہیں ، اور یہ تو اپنی دنیا میں مست ہیں ، یہ خود علماء کے پاس کیوں آنے لگیں ، اگر کوئی پہونچتا ہے تو وہی نذرانے وصول کرنے والے ہیں ۔ وہ انھیں شرکیات وبدعیات میں سلاکر اپنا نذرانہ لے کر چل دیتے ہیں ۔