گزرا ہے ، پھر تدبیر الٰہی کی حکمت ہے ،کہ شروع سے میں عوامی ربط میں رہتا آیا ہوں ۔ تدریس کے بالکل ابتدائی دور میں جبکہ میری عمر ۲۲۔۲۳ سال سے زیادہ نہ تھی ، بہار کے ایک کوردہ علاقہ سنتھال پرگنہ میں پہونچادیا گیا ، جہاں کئی سال تک پورا رمضان گزارتا رہا ، بالکل ناخواندہ لوگوں کے درمیان شرک وبدعت کے طوفان میں گھراہوا ۔ اس کی ایک دلچسپ داستان ہے ، جو ضرورت ہوئی تو کبھی قارئین کو سنائی جائے گی ۔ یہ عوامی ربط جو قائم ہوا ،تو اب تک اس کا سلسلہ کسی نہ کسی عنوان سے چلا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب تجربے ہوئے ، لیکن ۱۹۹۰ء تک میری جو بھی مصروفیت رہی ضلع اعظم گڈھ اور ضلع مئو سے باہر رہی ، حالانکہ جغرافیائی اعتبار سے میری جائے پیدائش پہلے اعظم گڈھ میں تھی اور اب ضلع مئو میں ہے مگر مدارس میں تدریس کے لحاظ سے بنارس ، غازی پور ، الہ آباد اور جونپور میں میری مصروفیت رہی ، اس لئے ضلع اعظم گڈھ کے احوال سے زیادہ واقفیت نہ ہوسکی ۔۱۹۹۰ء میں شیخوپور ضلع اعظم گڈھ اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد مسلم صاحب نور اﷲ مرقدہٗ کے حکم سے آیا ، تو یہ خوشی تھی کہ علم وفضل کے لہلہاتے گلستاں میں پہونچ گیا ہوں ۔ لیکن آہستہ آہستہ جب یہاں عوامی رابطہ بڑھا ، اور انجانے گاؤں اور دیہاتوں تک معلومات کا دائرہ پھیلا تو اندازہ ہوا کہ ان روشن چراغوں تلے بڑا گھنا اندھیرا بھی ہے۔
اس وقت مجھے ضلع اعظم گڈھ کا جائزہ لینا منظور نہیں ہے ۔ میں ضلع مئو کے ایک مخصوص خطہ کا ایک ہلکا سا جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں ، اور اہل علم واصحاب درد حضرات کو دعوت دیتاہوں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی طرف توجہ فرمائیں ، کیا عجب کہ یہ صورت حال جو میں ابھی ذکر کروں گا ، دوسری جگہوں پر موجود ہو۔
میں عموماً اپنے طالب علموں میں یہ ذہن پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ رسمی طالب علمی سے فراغت کے بعد تلاش معاش میں دوردراز نہ نکلیں ، مسلمانوں کا ہرخطہ محتاج خدمت ہے ، اﷲ پر بھروسہ کرکے ، مشکلات وموانع کا مقابلہ کریں ، اور اپنے اپنے علاقوں میں دین کی خدمت انجام دیں ، حق تعالیٰ روزی کے کفیل ہیں ، جہاں بھی آدمی دین کی خدمت کرے گا وہ