صورت میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے گی اور مقصد ہی فوت ہوجائے گا ۔ یہ کمزوری کبھی علم وفضل کے لباس میں نمایاں ہوتی ہے ، کبھی تدین وتقویٰ کے رنگ میں ظہور کرتی ہے ، کبھی اصلاح ورہبری کا لباس پہن کر آتی ہے ،ایسے لوگ بظاہر نہایت درد مند ، قوم کے بہی خواہ ، دین وملت کے لئے مضطرب اور اسلام اور اہل اسلام کی ہمدردی میں بے قرار نظر آتے ہیں ، اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور نیک نیتی کا راگ الاپتے ہیں ، مگر یہ سب کچھ ظاہری نمائش سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ، اندرو ن طبیعت میں صرف ایک جذبہ ہوتا ہے کہ کسی طرح لوگوں کی مقتدائیت حاصل ہوجائے ، یا کم ازکم لوگوں میں ان کی انفرادیت کا سکہ بیٹھ جائے ، عوام وخواص میں شہرت حاصل ہوجائے ، تعریفیں ہوں ، سب پر چھاجائیں ، ہر ایک ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہو ، باطن میں یہ نیت شعوری یا غیر شعوری طور پر تہ نشین ہوتی ہے ، لیکن اگر کوئی شخص اس نیت کا اعلان کرکے میدان میں اترے توکون اس کی بات پوچھے گا؟ اس لئے وہ دینی رنگ میں تدبیریں اختیار کرتا ہے ، پھر اگر ان تدبیروں میں انفرادیت نہیں پاتا تو بالکل اجنبی راہ اختیار کرنے پر تل جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب قرآن کا علم سب میں عام ہوجائے گا تو اس میں کیا انفرادیت باقی رہ جائے گی ۔ پس وہ اسی میں انفرادیت کی ایک راہ نکالے گا ، کہ زیادہ سے زیادہ نماز وغیر ہ کااہتمام کرے گا ، بار بار اس کانام لے گا، اس سے اپنا گہراتعلق طاہر کرے گا ، لوگوں میں قرآن کی دہائی دے گا ، دردمندی کا اظہار کرتے ہوئے قرآن کو سب سے زیادہ مظلوم کتاب قرار دے کر اس کی دادرسی کرنا چاہے گا ، مگر جب اس کے باوجود لوگوں کا التفات نہیں پاتاتو کچھ اور تدبیر اختیار کرتا ہے، مثلاً یہ کہ اپنے گھر میں عبادت گاہ بناکر خلوت نشین ہوجاتا ہے کہ شاید اس طرح اس کی بزرگی اور زہد وتقویٰ کا چرچا ہو ، مگر محسوس کرتا ہے کہ اس راہ سے بھی خاطر خواہ شہرت نہیں حاصل ہورہی ہے ، تو پھر بالکل نئی راہ نکالنے کو سوچنے لگتا ہے ، ایسی راہ جس کا قرآن وسنت میں پتہ نہ ہو ۔ اس کا دعویٰ یہ ہوتا ہے ، اور بڑی بلند آہنگی سے ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ پیش کررہا ہے وہی دین ہے ، اسلاف نے جو کچھ اس کو نہیں ذکر کیا ، تو یہ ان کا قصورِ فہم تھا ، ان کی سادگی تھی ، ان کی سادہ لوحی