{فَلْیَنْظُرْ أیُّھَا أزْکیٰ طَعَاماً فَلْیَاتِکُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلْیَتَلَطَّفْ وَلَا یُشْعِرَنَّ بِکُمْ أحَداً} مطلب یہ ہے کہ جانے والا پاکیزہ اور حلال کھانے کی جستجو کرے اور اس میں سے کچھ کھانا لے کر آئے ،اور اس طرح آہستگی اور خفیہ طریقے پر جائے کہ تمہارے وجود کا کسی کوپتہ نہ چلے۔کیونکہ {إنَّھُمْ إنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ أؤ یُعِیْدُوْکُمْ فِیْ مِلَّتِھِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْا أبَداً}اگر وہ تم کو جان لیں گے تو تمہیں پتھروں سے ماریں گے یا تم کو اپنی ملت میں لوٹا لیں گے ، اور اگر ایسا ہوا تو تم کبھی کامیاب نہ ہوسکوگے۔
آج بھی ان مدارس کیلئے یہی طریقۂ کار متعین ہے کہ کفر ان کے ا حوال اور ان کی سرگرمیوں پر مطلع نہ ہو ، ورنہ یہ کافر انھیں ہلاک کر نے کی کوشش کریں گے ، تہمتیں لگائیں گے ، پریشان کریں گے ، یا پھر اپنے طور طریقے پر لانے کی جدوجہد کریں گے ۔ ان مدارس کا خاموش عمل ہی مؤثر ہے ، اور یہ نہ سمجھیں کہ ان کا یہ خاموش عمل بے اثر ہوگا ، یا اس سے ان کی معیشت تباہ ہوگی ۔ اﷲ پر بھروسہ کریں ، تو دین وایمان بھی محفوظ رہے گا ۔ جان کی بھی حفاظت ہوگی ، اور بقدر ضرورت معاش کا بھی انتظام ہوتا رہے گا ۔ اور خوشگوار انقلاب کے دروازے پر دستک بھی ہوتی رہے گی ۔
کہنے والے جو چاہیں کہتے رہیں ، طعنہ دینے والے جو چاہیں طعنہ دیتے رہیں لیکن مدارس کو انھیں خطوط پر عامل رہنا چاہئے جو ابتداء ً بزرگوں نے متعین کردئے تھے ۔ بانی ٔ دارلعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ نے چند رہنماا صول دارالعلوم دیوبند کیلئے ابتداء ً متعین فرمائے تھے ، یہی اصول تمام مدرسوں کے لئے ہیں ۔ ان میں سے چند دفعات یہاں نقل کی جاتی ہیں ۔
(٭)…اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں ہے جب تک یہ مدرسہ انشاء اﷲ بشرطِ توجہ الی اﷲ اسی طرح چلے گا ، اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہ یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ورجا جو سرمایہ رجوع الی اﷲ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد ِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں