تعلیم گاہ کا حصار بنالیا ، اور اس میں روپوش ہوگئے ، یہ مدرسہ ان کیلئے بمنزلۂ کہف کے تھا ۔ یہاں بھی معاش ومعیشت کا سوال تھا ، تو ان لوگوں نے بھی توکل اور دعا سے کام لیا ۔ پھر ایک بڑی تعداد اس کہف میں آتی چلی گئی ، اس مدرسہ میں اور اس کے زیر اثر دوسرے مدرسوں میں ایسی تعلیم کا انتظام کیا گیا ، جس سے کافرانہ حکومت کو نہ کوئی سروکار ہو ، نہ بظاہر کوئی خطرہ! حکومت کی نگاہ سے بچ کر دین وایمان کے تحفظ کا مستحکم عمل یہاں ہوتا رہا ، دنیا کا قافلہ جس طور پر سفر کررہاتھا ، اس کے لحاظ سے مدرسے والے گویا کہ خواب غفلت میں تھے ، دنیا جدھر بھاگ رہی ہے ، یہ ادھر رخ ہی نہیں کرتے ، اس لئے دنیا انھیں سوتا سمجھ کر آگے بڑھتی چلی گئی اور یہ اپنی آخرت اور اپنا دین سنبھالے بیٹھے رہے ، دنیاوی نظام کے لحاظ سے ان کی معاش اور دوسری ضروریات زندگی کا مسئلہ قابل غور تھا ، مگر انھوں نے اس پر غور کرنے کے بجائے خدا کے حوالے کردیا ۔
ان بزرگوں نے ایک نظام بنایا کہ ایمان واسلام یہاں محفوظ رہے ، اور بحمد اﷲ وہ محفوظ رہا ۔۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک یہ کہفی نظام چلتارہا ۔ بہت سے لوگوں نے انھیں طعنہ دیا کہ یہ زمانے سے بے خبر لوگ آخر زمانے کی خبر کیوں نہیں لیتے ، کفر بڑھا اور چڑھا چلا جارہا ہے ، مگر یہ خاموشی کے ساتھ اپنی بے خبری میں مست رہے ۔ پھر جب ۹۰؍ سال کے بعد ایک انقلاب آیا تو زمین کے نقشے پر مسلمانوں کی ایک سیاسی طاقت پاکستان کے نام سے وجود میں آچکی تھی ، جو زمین کے دو بڑے حصوں پر مشتمل تھی ، پھر تکوینی طور پر وہ دونوں حصے الگ الگ ملک بن گئے ۔ یہ دونوں ملک چاہے جیسے ہوں ، مگر ان کا مذہب اسلام ہے ۔ اور یہ مدارس دونوں جگہ آباد ہیں ۔ ہم جس خطہ ٔ زمین پر ہیں ، اس کا مذہب اسلام نہیں ہے ، لیکن یہاں بھی مدارس کے کہف کی شکل میں ایمان واسلام کے تحفظ کا پورا انتظام موجودہے ۔
تو یہ مدارس در حقیقت دین وایمان کے تحفظ کے بہترین قلعے ہیں ۔ ان کا نظام وہی بہتر ہے کہ کفر وسیاست کی نگاہیں ان پر نہ پڑیں ۔ اصحابِ کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے ایک آدمی کو کھانے کیلئے باہر بھیجنے کا جب ارادہ کیا تو اس باہر جانے والے کو ہدایت کی کہ