قرآن میں بیان کردہ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں انقلاب لانے کا ایک ہی ذریعہ نہیں ہے کہ کفر سے راست ٹکر لی جائے ۔ حالات کے لحاظ سے ٹکراؤ کا راستہ بدلا بھی جاسکتا ہے ، البتہ روح دونوں جگہ ایک ہوگی ، وہ یہ کہ اﷲ پر کامل ایمان اور مکمل توکل انسان کا شعار ہو ، پھر ہجرت بھی سرچشمہ ٔ ہدایت ثابت ہوگی ، اور جہاد وقتال بھی !
دنیا طلبی اور اقتدار پسندی ہردوصورت میں نہ ہو ، ورنہ خدا کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہ ہو گی ۔
یہ واقعہ جو ہم نے قرآن کریم میں پڑھا ، پچھلی تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے ۔ اور اﷲ تعالیٰ نے اپنی پسندیدگی کی مہر اس پر لگا کر ہمیشہ کے لئے اہل ایمان کے واسطے ایک لائحہ ٔ عمل متعین کردیا ہے ۔
اب آئیے ، اس دور میں آئیے ، جس کا ایک حصہ ہم اور ہمارے قریبی اسلاف ہیں ۔ ۱۸۵۷ء میں ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کا مکمل خاتمہ ہوگیا ۔ اس وقت انگریزوں سے راست ٹکر اؤ کا انتظام ، اس ملک والوں نے بالخصوص مسلمانوں نے کیا تھا ۔مگر اس ٹکراؤ کے نتیجے میں جو کچھ رہی سہی برائے نام مسلمانوں کی حکومت تھی وہ بھی ختم ہوگئی ، علماء اسلام نے اس ٹکراؤ میں بڑا ہمہ گیر حصہ لیا تھا ۔ اس لئے انگریزوں نے انھیں خاص طور سے اپنے نشانے پر رکھا ، اور علماء شہادت سے سرفراز ہوئے ، جو بچ گئے تھے ، اب ان کے سامنے وہی دوسرا راستہ رہ گیا تھا ، جو اصحابِ کہف نے اختیار کیا تھا ، چنانچہ موجود علماء نے بھی وہی راہ اختیار کی ، اور اپنے کو کافرانہ نظام حکومت کے سامنے سے ہٹالیا ۔ ایک خاصی تعداد ہجرت کرکے ارضِ اسلام یعنی حرمین شریفین چلی گئی ، حتیٰ کہ اس وقت جو بزرگ امیر المومنین بنائے گئے تھے یعنی حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی ؒ وہ بھی مکہ شریف پہونچ گئے ، لیکن اپنے دو خلفاء کو ہندوستان میں چھوڑ گئے ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرھما
ان دونوں بزرگوں نے اپنے کو حکومت وقت کی نگاہ سے اس طرح ہٹایا کہ ایک