حق تعالیٰ نے قرآن پاک میں خبر دی کہ ان جوانوں نے دوسری راہ اختیار کی ، اور بجائے کافرانہ نظام حکومت کے سامنے ڈٹ جانے اور مقابلہ کرنے کے ، ایک مرتبہ اعلانِ حق کیا ، اور باہم مشورہ کرکے ایک پہاڑی کہف(کھوہ) میں پناہ لینے چلے گئے وہاں ایمان کی حفاظت تو یقینی تھی ، کیونکہ کفر کی نگاہوں سے وہ روپوش ہوچکے تھے ، مگر زندگی کا مسئلہ اور ضروریات زندگی کا معاملہ اہم تھا ۔ یہاں کیا کمائیں گے ؟ اور کیا کھائیں گے ؟ پھر زندگی کی دوسری ضروریات سے کیسے عہدہ برآ ہوں گے ؟ یہ سوال بہت مشکل تھا ، مگر ایمان کے تحفظ وبقاء کے خیال نے اس کی پرواہ نہ ہونے دی ، تاہم اس سے صرف نظر ممکن نہ تھا ۔ کھوہ میں پہونچ کر وہی ایمان جو انھیں یہاں تک لے کر آیا تھا ، اسی ایمان نے ایک راستہ ان پر کھولا ۔ انھوں نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنے پروردگار کی باگارہ میں دعا کی کہ{ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَھَیِّیْٔ لَنَا مِنْ أمْرِنَا رَشَداً}سورہ کہف :۱۰)اے ہمارے پروردگار! آپ ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائیے ۔ اور ہمارے لئے ہمارے اس معاملہ میں ہدایت کا سامان مہیافرمادیجئے ۔
مطلب یہ ہے کہ زندگی کے لئے اور ایمان ویقین کے لئے جس جس سامان رحمت کی ضرورت ہے ، سب کا انتظام آپ فرمادیجئے ، پھر اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں نیند کی آغوش میں سلادیا ، اور بغیر اسباب ظاہر کے ان کی زندگی ، صحت اور حفاظت کا مکمل انتظام تین سو سال تک قائم رکھا ۔ پھر جب ان کی آنکھ کھلی تو اس خطۂ زمین پر ایک خوشگوار انقلاب آچکا تھا ، کافرانہ نظام حکومت فنا ہوچکا تھا ۔ باطل کا زور ٹوٹ چکا تھا ۔ اہل حق غلبہ پاچکے تھے ۔ اس ہدایت میں کیا ان سونے والے اصحابِ کہف کا دخل نہیں تھا ؟ اسباب ظاہر کی خوگر نگاہ تو یہی سمجھے گی کہ اس انقلاب میں ان سونے والوں کا دخل نہیں ہے ۔لیکن قرآن نے جس سیاق میں یہ واقعہ بیان کیا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ، اس ہدایت کے پھیلنے اور انقلاب کے آنے میں اصحاب کہف کا یہ خاموش عمل ہی اصل عامل ہے ، ان کے اس مجاہدانہ اور متوکلانہ اقدام کا یہ ثمرہ ظاہر ہوا کہ دنیا بدل گئی ۔