جائیے ، ظالموں کی نقالی عام ہے ، مسلمانوں کی صورت غائب ، انگریزوں کی صورت غالب ، اور صرف صورت ہی نہیں تہذیب وتمدن بھی، سوچ وفکر بھی ! ارادہ اور عمل بھی ! عبادت ہر جگہ بار ہے ، قرآن کی تلاوت ہر جگہ مشکل ہے ، اسلامی فکروعمل ہرجگہ مفقود ہے ۔ سیاسی ضرورت ہو تو اسلام کا نام لیا جاتا ہے، مگر عمل کا مطالبہ ہوتو سب کو نیند آنے لگتی ہے ۔
یہ حال تو عوام وخواص کا انفراداً ہے ، اب ذرا حکومتوں پر ایک نظرڈالئے ، تو معاذ اﷲ ! عالم اسلام کے جتنے حکمراں ہیں ، الاماشاء اﷲ سب پر ظلم وطغیان کا ہَوّا چھایا ہوا ہے ۔ ایک ظالم کچھ بولتا ہے تو سب اس کے پیچھے جی ہاں جی ہاں کرتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے کچھ جانبازوں اور سرفروشوں نے اسلامی سیاست وحکومت کو زندہ کرنے کی کوشش کی تھی تو ظالموں کا یہ سرغنہ غرانے لگا ۔ پھر سب دم سادھ کر بیٹھ گئے ۔ اور اس نے اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے ایک خطۂ زمین کو جہنم زار بنادیا ،پھر اس کی نگاہ گرم ایک جگہ اور پڑی ، وہاں بھی سب چپ ہوگئے ، اور اس نے ایک ملک کے ملک کو تباہ کرکے رکھدیا ، اتنے کے بعد بھی اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں امن وامان کا نقیب ہے ، اور سب کہہ رہے ہیں کہ جی حضور !کسی کے سینے میں دل اور کسی کے منہ میں زبان نہیں کہ اس کو ٹوک سکے ، اور اب شور ہے کہ اس کی جرأت بیجا کے نشانے پر اﷲ کی کتاب بھی آرہی ہے ۔ قرآن کریم میں جہاد کی آیتیں ہیں ۔قتل وقتال کے احکام ہیں ، مخالفین کی سرکوبی کی ہدایات ہیں ۔ ان ظالموں کو ان میں دہشت گردی نظر آرہی ہے ۔ شاید منشا یہ ہے کہ انھیں قرآن سے نکال دو ، ان کی تلاوت نہ کرو ، مدارس میں ان کا درس نہ دو مجمع عام میں ان کی تبلیغ نہ کرو ۔ اور مسلمانوں کی حکومتیں ہیں کہ انھیں اس کے خلاف بھی کہنے کی جرأت نہیں ہے ، اﷲ جانے بات کا سلسلہ کہاں تک پہونچے گی ، یہ مرعوبیت ، ظلم وطغیان کے سامنے سرافگندگی ، ظالموں کی طرف یہ جھکاؤ اور میلان اس کا سلسلہ کہاں تک دراز ہوگا ۔ جو لوگ توحید کے بڑے دعو ے دار ہیں ۔ ان کا جذبۂ توحید کہاں گیا ؟ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی مصیبتوں میں اسی طاغوت کی دہائی دیتے ہیں ، اسے اپنے