سے بھی ۔ یہ سب وہ ہیں ، جن کے سامنے صرف دنیاہے ، اور دنیا کی زندگی ہے ۔ قرآن کریم کی زبان میں یہ سب ظلم کے مرتکب ہیں ۔ان سے رُوگردانی کرنا عین فریضہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا رشاد ہے ،{فَاعْرِضْ عَمَّنْ تَوَلّیٰ عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ إلَّاالْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا،ذٰلِکَ مَبْلَغُھُمْ مِنَ الْعِلْمِ }(سورہ النجم ۲۹؍۳۰) تم اس سے رُوگردانی کرو ، جو ہماری یاد سے منھ موڑے اور دنیا کی زندگی کے ماسوا کچھ ارادہ نہ کرے ، ان کی سمجھ کی پہونچ یہیں تک ہے ۔
انھیں ظالموں کے بارے میں ہدایت کی گئی ہے کہ ان کی طرف تمہارا میلان بالکل نہیں ہونا چاہئے ، ورنہ اندیشہ ہے کہ جو آگ ان پر دہک رہی ہے اس کی لپٹ تم کو بھی نہ لگ جائے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارا والی وناصر بجز اﷲ کے کوئی نہیں ہے ۔ اگر تم ان ظالموں کی طرف میلان رکھوگے تو یقین ہے کہ خدا کی نصرت سے محروم ہوجاؤگے ۔
اس آیت کریمہ کے آئینے میں ہماری صورت کیا نظر آتی ہے ؟انفرادی حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نہیں غالب اکثریت کا ظالموں کی طرف صرف میلان نہیں ، بلکہ اچھی خاصی ان کی پیروی میں مبتلا ہیں ۔ نہ شکل وصورت سے مسلمان معلوم ہوتے ، نہ رہن سہن سے ، بس کبھی مسجد میں حاضری ہوتی ہے تو مسلمان معلوم ہوتے ہیں ۔ اور مسجد میں حاضری کا حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بھری پُری آبادیاں ہیں ، اور مسجد میں دیکھئے تو صف دوصف سے زیادہ نہیں ہوتی ، یہی لوگ کبھی کبھی کسی داعیے یا موقعے سے جب اکثر مسجد میں پہونچ جاتے ہیں ، تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ، نمازیوں کو باہر کھڑا ہونا پڑتا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرض نمازوں کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے شاید نوے فیصد ہوتے ہیں ۔ جہاں اتنی زبردست اکثریت ظالموں کی طرف جھکاؤ رکھتی ہو ، وہاں اﷲ کی نصرت کی کیا امید کی جاسکتی ہے ۔ کاش ! اہل ایمان اس پر غور کرتے اور ہمت باندھ کر اطاعت الٰہی پر کمربستہ ہوتے ، ریڈیو سننے والے ، ٹی، وی دیکھنے والے ، اخبار پڑھنے والے بہت ملتے ہیں ۔ مگر قرآن پڑھنے والے کتنے ملتے ہیں ۔ گھر کاگھر خالی ،کنبہ کا کنبہ کا محروم!
یہ حال صرف ہمارے ملک ہندوستان ہی کانہیں ہے ، عالم اسلام میں جہاں جہاں