ملکوں پر مسلط کردیتے ہیں ، حالانکہ اس سے منع کیاگیا ہے ،{ألَمْ تَرَ إلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ أنَّھُمْ آمَنُوْا بِمَا أنْْزِلَ إلَیْکَ وَمَا أنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ أنْ یَّتَحَاکَمُوْا إلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ أمِرُوْاأنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ أنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلَالاً بَعِیْداً} (سورہ نساء :۶۰)ترجمہ:کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری طرف اترا اور جو کچھ تم سے پہلے اترا، اس پر ہم ایمان لائے ، چاہتے ہیں کہ شیطان کے پاس معاملہ لے جائیں ، حالانکہ حکم ہوچکا ہے کہ اس کو نہ مانیں ، اور شیطان تو چاہتا ہی ہے کہ انھیں بہکا کر دور پھینک دے،
ان طاغوتوں کا جواب یہ نہیں ہے کہ ان کی خوشامد کی جائے ۔ ان کی خوشامد سے اﷲ ناراض ہوتے ہیں ۔ان کا جواب یہ ہے کہ ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان سے دو ٹوک بات کی جائے اور اگر وہ حملہ آور ہوتے ہیں ،تو تمام کلمہ گو ایک ہوکر اس کا مقابلہ کریں ۔ اس صورت میں یقین ہے کہ خدا کی نصرت آئے گی اور اگر وہ کہیں غالب بھی نظر آئیں ،تو بالآخر مغلوب ہوں گے ۔
مگر رنج کی بات یہ ہے کہ ایک عرصہ سے یہی تماشا ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ہمت والا کھڑا ہوتا ہے، تو جو بے ہمت ہیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے اندر ہمت پیدا کرتے ، کمزور بنے پڑے رہتے ہیں ۔ بلکہ سازشوں اور نفاق وشقاق کے طوفان اٹھانے لگتے ہیں ، ٹیپوسلطان کے ساتھ یہی ہوا ، حضرت سید احمد شہید ؒ کے ساتھ یہی ہوا ، سوڈان میں یہی ہوا ، سنوسی مجاہدین کے ساتھ یہی ہوا ، خلافت عثمانیہ اسی طرح فنا ہوئی ۔اور ادھر دور اخیرمیں افغانستان میں یہی ہوا۔لعل اﷲ یحدث بعد ذٰلک أمراً
(مارچ ۲۰۰۴)
٭٭٭٭٭