میں نے قرآن پڑھا مگر مقتدا نہ بن سکا ، اس کا زبردست اہتمام کیا ، یعنی نمازوں میں پڑھا ، لوگوں میں اس کی اہمیت ظاہر کی ، تب بھی لوگوں نے مجھے نہیں مانا ، اچھا اب گھر میں مسجد بناکر بیٹھ رہتا ہوں ، شاید اس سے لوگوں کے نزدیک میری اہمیت ہو ، پھر وہ گھر میں مسجد بناکر خلوت نشینی اختیار کرے گا ، مگر اس کے باوجود بھی اسے کوئی نہیں پوچھے گا ، وہ کہے گا :میں نے قرآن پڑھا ، تب کسی نے نہیں پوچھا ، میں نے قرآن کا اہتما م کیا ، تب بھی لوگ میرے پیچھے نہ چلے ، میں اپنے گھر میں مسجد بناکر بیٹھ گیا ، تب بھی کسی نے نہ پوچھا ، اچھااب اﷲ کی قسم ایسی باتیں لاؤں گا جن کا پتہ نہ اﷲ کی کتاب میں ہوگا،اور نہ انھوں نے اﷲ کے رسول سے وہ باتیں سنی ہوں گی ، شاید تب لوگ میری پیروی کریں ۔ حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ خبردار جو بات وہ لایا ہے ، اس سے دور ہی رہو ، کیونکہ وہ سراسر گمراہی ہے۔
جس دور میں حضرت معاذ بن جبل ؓنے یہ بات ارشاد فرمائی تھی ، اس قت ایسے لوگ مسلمانوں میں نہ تھے ،و ہ زمانہ خیر کا تھا ، حضراتِ صحابہ کا وجود شمعِ ہدایت بن کر جگمگارہا تھا، اخلاص وللٰہیت کی دولت فراواں سے ان کے قلوب مالا مال تھے ، اﷲ کا خوف طبیعتوں میں راسخ تھا ، احکامِ الٰہی کی عظمت کے سامنے نفس کی خواہشات پامال تھیں ، مگر جوں جوں زمانہ پیچھے ہٹتا گیا خلوص وللٰہیت کا سرمایہ کم ہوتا گیا۔ خوفِ خدا کی جگہ ہوائے نفس کا غلبہ ہوتا گیا ، پھر ایسے لوگوں کی بتدریج کثرت ہونے لگی جن کی نشاندہی حضرت معاذ بن جبلؓنے کی ہے ، اور پندرہویں صدی کے اس بعید تر دور میں ستم ظریفوں کی یہی ٹولی خود کو اسلام کی محافظ وترجمان قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ نے اپنے اس ارشاد میں جس انسانی کمزوری پر انگلی رکھی ہے ، وہ بہت اہم ہے۔بکثرت لوگوں میں بالخصوص وہ لوگ جن کو ذہانت وذکاوت اور ہمت وحوصلہ کی وافر مقدار قدرت کی جانب سے عطا ہوئی ہے ،ا ور انھوں نے نفس کا تزکیہ نہیں کیا ہے ، ایسے افراد میں خود نمائی اور عوام الناس کی مقتدائیت اور اپنی انفرادیت کے اظہار کا زبردست جذبہ ہوتا ہے ، لیکن اس کا ظہور اس کے اصلی رنگ وروپ میں نہیں ہوتا ، کیونکہ اس