معذرت سے سب کو فکر لاحق ہوئی ۔ خصوصیت سے ارباب ِ شوریٰ نہایت فکر مند ہوئے کہ قرعۂ فال کس کے نام آئے اور کس کو یہ ذمہ داری سپرد کی جائے ۔
اﷲ کا کرنا ہوا کہ سب کی نگاہ گاؤں ہی کے ایک نوجوان فاضل دیوبند مولانا انتخاب عالم صاحب پر ٹھہری ، ان سے فرمائش کی گئی کہ وہ اس ذمہ داری کو قبول کریں ۔ اول تو انھوں نے بہت معذرت کی ، مگر چونکہ ان کے انتخاب پر سب کا اتفاق تھا ۔ اس لئے انھیں مجبوراً قبول کرنا پڑا ۔
چنانچہ انھوں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی اور ماشاء اﷲ نہایت مستعدی اور لگن کے ساتھ ، وہ انتظامی امور سے دلچسپی لے رہے ہیں ۔ خدا تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی کاوشوں اور کوششوں میں برکت عطافرمائیں گے اور مدرسہ حسب سابق ترقی کرتا رہے گا ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر!
جس وقت ذمہ داری کا یہ بوجھ ان پر ڈالا گیا ، اس وقت مدرسہ قرض کے بار تلے دبا ہوا تھا ۔ رمضان شریف کے بعد بحمد اﷲ پچھلے قرض تو اداہوگئے ، لیکن موجودہ تعلیمی سال میں کیا ہوگا ؟ اس کا انتظام کیسے ہوگا ؟ یہ ایک سوال ہے جو ارباب انتظام کو پریشان کئے ہوئے ہے ، جن لوگوں کی نگاہ سے یہ سطریں گزریں ، ان سے درخواست ہے کہ مدرسہ کے حق میں بارگاہِ الٰہی میں دعا کا ہاتھ اٹھائیں کہ حق تعالیٰ خزانۂ غیب سے اس دینی تعلیمی ادارے کی مدد فرمائیں ، تنگی کو فراخی سے اور مشکلات کو آسانیوں سے بدل دیں ۔ ان کے فضل ورحمت کا ایک ہلکا ساجھونکا بھی متوجہ ہوجائے ، تو ہر دشواری کا خاتمہ ہوجائے گا ۔
مدرسہ کے مالی بحران کی وجہ سے ارادہ تھا کہ طلبہ کی تعداد محدود اور مختصر رکھی جائے گی ، تاکہ اس راہ سے بھی اس بحران کا قدرے ازالہ ہو ، لیکن ہوا یہ کہ ابھی شوال المکرم کی صرف پانچ تاریخ ہوئی تھی ۔ کہ طلبۂ علم دین کے قافلے ، مدرسہ میں وارد ہونے لگے ، مدرسہ کی تعطیل ۱۰؍ شوال کو ختم ہونے والی تھی ، مگر پانچ چھ دن پہلے ہی سے وہ ہجوم شروع ہوا کہ ۱۰؍ شوال آتے آتے ایسا لگا کہ پرانے طلبہ کی تعداد کے برابر نئے طلبہ آگئے ۔ اﷲ کا احسان ہے