نہیں کی ، بلکہ اپنے دینی ذوق کی بنا پر شہر کے مختلف مقامات اور مساجد میں درس قرآن کا منصوبہ بنایا ، اور فرمائش کی کہ اس کے لئے کم ازکم دس دن اس شہر کے واسطے وقف کروں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان کی فرمائش میرے لئے حکم ہے ، میں اس کو ٹال نہ سکا ، اور ۱۲؍ دسمبر کو دربھنگہ حاضر ہوگیا ۔ آج ۱۳؍ دسمبر کو یہ سطریں لکھ رہاہوں ۔ محلہ کرم گنج کی مسجد میں کل درس قرآن کا آغاز ہوا ۔ سورۂ کہف کی تفسیر وتذکیر تجویز ہوئی ۔ اﷲ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی تو دس گیارہ مجالس میں اس سورہ شریفہ کا درس اپنی استعداد کے مطابق پورا کروں گا ۔
جس وقت یہ رسالہ قارئین کے ہاتھوں میں پہونچے گا ۔ میں ان مجالس سے فارغ ہوکر واپس مدرسہ آچکا ہوں گا ۔ ان شاء اﷲ ،قارئین کرام حسن قبول کی دعا فرمائیں ۔
ان سطروں کی تحریر سے مقصود خودنمائی نہیں ہے ، یہ گنہگار اور حقیر بندہ کتنا رُوسیاہ اور بے حیثیت ہے ، یہ خوب معلوم ہے ، خداوند تعالیٰ کی ستاری اور دوستوں کی نگاہ محبت ہے ، کہ بہت سے لوگوں کو حسنِ ظن ہے ، اور اس حسن ظن کو میں اپنے لئے سرمایۂ نجات سمجھتا ہوں ، ورنہ اگر واقعی حقیقت کھل جائے ، تو تمام دوستوں کو شرمندگی ہوگی کہ گندگی کے کس ڈھیر سے ہم دھوکہ کھا گئے ، اﷲ تعالیٰ مجھے معاف فرمائیں ۔یہ سطریں اس لئے لکھی جارہی ہیں کہ میرے دوستوں کو اس کا احساس ہے کہ درس قرآن کے اس سلسلے سے عامۃ المسلمین کو بہت نفع ہوتا ہے ، شہر اعظم گڈھ میں ہر ہفتہ اتوار کو یہ سلسلہ چودہ سال کے عرصے سے جاری ہے ، اس کے اثرات وفوائد اعظم گڈھ کے مسلمانوں پر بہت نمایاں ہیں ۔ اگر ہمارے لائق فائق علماء ومشائخ اپنے اپنے ماحول ومعاشرہ کی مناسبت سے قرآن کریم کا درس جاری کریں اور عام مسلمانوں کو اس کے حقائق ومعارف سے آگاہ کریں ، اور اس کے ذریعے سے ایمان وعمل کی تخم ریزی کریں ،تو امید ہے کہ قلوب میں خاصا انقلاب آجائے ۔ برائیاں اگر بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں ، تو بھلائیوں کے پھیلانے میں بھی سرگرمی چاھئے ، تاکہ برائیاں کچھ سمٹیں اور ان کی تاریکیاں کچھ چھٹیں ۔
شیخ الھند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہٗ جب مالٹا کی جیل سے