حضرت سلیمان ں نے بلاشبہ جنات سے کام لیا، ان سے بلڈنگیں تعمیر کرائیں ،مجسمے بنوائے، لگن اور دیگیں ڈھلوائیں ، لیکن کیا اس سے اشارۃً بھی کوئی ثبوت ملتا ہے کہ یہ فن علوم دین میں شامل ہے اور اس کا براہ راست دین سے کوئی تعلق ہے۔ہاں ان کی اس استدلالی منطق سے اگرکوئی چاہے ،تو یہ ثابت کرسکتا ہے کہ جنات کو مسخر کرنے اور ان کو اپنے کاموں میں استعمال کرنے کا فن البتہ دینی اور انبیائی علم ہے، کیونکہ حضرت سلیمان ں کیلئے جنات مسخر تھے،اور وہ ان سے کام لیا کرتے تھے،مگر وہ شاید اس کو پسند نہ کریں ۔
اور تختِ سلیمانی کے بارے میں مولانا موصوف نے مودودی صاحب اورمولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی تقلید میں ایک نیا انکشاف کیا ہے، جس کا شاید اب تک کسی کو علم نہ رہا ہو کہ وہ ایک زبردست بحری بیڑہ تھا، جو سمندروں میں گشت کرتا پھرتاتھا، کاش اس کیلئے موصوف کوئی دلیل پیش کئے ہوتے۔
رسول اﷲ ا نے یقینا غزوۂ طائف میں منجنیق کا استعمال فرمایا تھا،مگر ہمارے ناقص علم میں اب تک یہ بات نہیں ہے کہ حضور اکرم ا نے اسلحہ سازی کو علم دین قرار دیا ہو،یا بطور علم دین کے اس کی ترغیب دی ہو،یا کم ازکم اس کیلئے کوئی کارخانہ بنایا ہو،ضرورت کے بقدر ہتھیار مہیا کرنا،دشمنوں سے مقابلہ کی تیاری کرنا، اس کے ذرائع ووسائل فراہم کرنالاریب کہ مطلوب ہے، مگر اسلحہ سازی کو دینی علوم کی حیثیت دے دی جائے،اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے،
ضرورت کی چیزیں ضرورت کیلئے ہوتی ہیں ،وہ مقاصد نہیں ہوتیں ،کھانا پکانے کا فن، کپڑاسینے اور بننے کا فن ایک انسانی ضرورت ہے، مگر ان فنون کو دینی علم قرار دینا ستم ظریفی ہے،
موصوف غالباً علم دین اور علم دنیا میں تفریق کے قائل نہیں ہیں ، وہ شاید علم کو ایک اکائی سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہ بات بداہۃً غلط ہے،واقعہ یہ ہے کہ علم دین ، جسے علم آخرت کہا جاسکتا ہے،وہ الگ ہے،اور علم دنیا، جسے فن اور ہنر کا نام دینا مناسب ہے،وہ الگ ہے،علم