یہ ہے کہ ان کی تقریر سن کر بہت افسوس ہوا، ان کی تقریر کا مرکزی موضوع ہی جادۂ حق سے منحرف تھا، پھر اس کی تائید میں انھوں نے قرآن کریم کی جن آیات کو پیش کیا، ان سے ان کے مدعا کی تائید نہیں ہو رہی تھی، تو انھوں نے ترجمہ میں اضافہ کر کے، اپنے اسی پیش کرد ہ اضافہ سے استدلال کیا، اس سے غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ قرآن سے استدلال کر رہے ہیں ، حالانکہ اس اضافہ کا تعلق قرآن کریم سے نہ تھا۔
انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس نکتہ سے کیا کہ یہ مدرسہ ’’احیاء العلوم‘‘ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدرسہ کو ’’العلوم‘‘ کے احیاء کے لئے قائم کیا گیا ہے، ’’العلوم‘‘ سے مراد دینی اور انبیائی علوم ہیں ، انھیں زندہ کرنا ہے، پھر انھوں نے بتایا کہ ’’دین‘‘ کی تشریح مشہور حدیث جبرئیل سے ہوتی ہے، حضرت جبرئیل رسول اﷲ اکے وصال سے کچھ پہلے اجنبی بن کر آپ کی مجلس میں آئے، اور پوچھا ما الاسلام؟ اسلام کیا ہے؟ ماالایمان؟ ایمان کیا ہے؟ ما الاحسان؟ احسان کیا ہے؟ آپ نے تینوں سوالوں کے جواب بہت وضاحت کے ساتھ دئے۔ وہ چلے گئے، تو آپ نے فرمایا کہ پوچھنے والے کو واپس بلاؤ، لوگوں نے تلاش کیا تو نہیں ملے، فرمایا وہ جبرئیل تھے، تم کو تمھارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام، ایمان اور احسان کے مجموعے کا نام ’’الدین‘‘ ہے، اس دین تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی ان آیات میں کی ہے جو بالکل آغاز نبوت میں نازل ہوئی تھیں یعنی: {إقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقرأ وربک الاکرم الذی علم بالقـلم علم الانسان ما لم یعـــلم} پڑھو اپنے رب کے نام سے لگ لپٹ کر جس نے پیدا کیا انسان کو جونک جیسے جمے ہوئے خون سے ، پڑھ اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے علم سکھایا، انسان کو وہ سب کچھ سکھایا ،جو وہ نہیں جانتا تھا، اور دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے رسول اکرم اکے کارہائے نبوت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا{کما أرسلنا فیکم رسولاً منکم یتلو علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ ویعلمکم مالم تکونوا