وقت خریدار آکر سب مٹھائی خریدلے جاتے تھے ، باقی اس کا دن فارغ ہوتا تھا ، جس کو وہ تلاوت وعبادت اور ذکر وفکر سے معمور رکھتاتھا۔
آج سے ۲۵؍سال پہلے کی بات ہے، میں حضرت مولانا قاری سیّد صدیق احمد صاحب باندوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر تھا ، اس وقت مولانا کے پاس خلقت کااتنا ہجوم نہ ہوتاتھا ، جتنا بعد میں رہنے لگا تھا، ان کا مدرسہ خاصا وسعت اختیار کرچکا تھا ، دیہات کا علاقہ ، بجلی کا نظم معقول نہ تھا ، بعض مدرسین بیٹھے تھے ، وہ مولانا سے کہہ رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا ٹرانسفارمر مدرسے کے لئے لگ جاتا تو بجلی کی سہولت ہوجاتی ، مولانا فرمارہے تھے ، اس کے لئے کیاکیا کرنا ہوگا ، کتنا دوڑنا پڑے گا ، پھر بجلی کا محکمہ ہے ، اﷲ جانے اس کے قانونی اور غیرقانونی ضابطے کیا کیا ہوں ؟ ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ ایک صاحب جو پتلون پہنے اپنی کسی ضرورت کے لئے حضرت کے پاس بیٹھے تھے ، بول پڑے کہ مولانا جی! اس محکمے کا ذمہ دار میں ہی ہوں ، ایک درخواست مجھے لکھ کر دیدی جائے ، میں ٹرانسفارمر لگوادوں گا ، مولانا بہت خوش ہوئے ، ان کو دعائیں دیں ، کاغذ لایا گیا، درخواست بھی انھیں نے لکھی ، مولانا نے دستخط کئے ، انھوں نے اسے جیب میں رکھ لیا ، کہنے لگاچار پانچ روز میں ٹرانسفارمر لگ جائے گا۔ میں نے اپنے جی میں کہا کہ وقت کی برکت یہ ہے؟ ورنہ اﷲ جانے اس ایک کام کے لئے کتنا دوڑنا پڑتا اور کتنا وقت اور مال لگانا پڑتا۔
ہمارے یہاں وقت کی برکت کاایک لمبا سلسلہ ہے، رسول اﷲ ا سے شروع ہوکر انھیں کے طفیل میں ان کے نائبین ووارثین تک ایک طویل تاریخ ہے ، تھوڑے وقت میں ان حضرات نے بہت کام کئے ، اور وقت کی تنگی یا عدیم الفرصتی کی شکایت نہیں کی۔
رسول اﷲ ا نے عالم انسانیت میں جو خوشگوار انقلاب برپا کیا ، وہ کتنی مدت میں ہوا، صرف ۲۳؍سال کی مدت میں ۔ آپ سیرت کی کتابیں پڑھ جائیے، حدیثوں کا مطالعہ کر لیجئے ، کہیں آپ عدیم الفرصتی کی شکایت نہیں پائیں گے، فرصت کاتو یہ عالم ملے گا کہ نوافل میں گھنٹوں آپ کھڑے رہتے تھے ، آپ کی سیرت کے تذکرے میں آپ کو ملے گا کہ آپ