سے جب کوئی مصافحہ کرتا تھا تو آپ اپنا ہاتھ اس وقت تک نہیں چھڑاتے تھے جب تک وہ خود نہ چھوڑتا ، عدیم الفرصت آدمی ایسا کرسکتا ہے۔
آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے حالات میں بھی یہی برکت نظر آتی ہے ، امیر المومنین حضرت عمر ص سے بڑھ کر کون عدیم الفرصت ہوسکتا ہے، مگر فرصت کی فراوانی کا حال یہ ہے کہ زکوٰۃ کا اونٹ بھاگ گیا ہے، تو امیر المومنین خود اس کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں ۔ بدو کے یہاں رات میں ولادت کا مرحلہ ہے، اس کا خیمہ مدینہ سے باہر ہے تو آپ خود اپنی زوجہ مکرمہ کو لے کر اس کے پاس پہونچتے ہیں ، اور جب تک بچہ بخیریت تولد نہیں ہوجاتا، وہاں سے ہٹتے نہیں ، ایک عورت خالی ہانڈی آگ پر چڑھائے ہوئے ہے، آپ کو معلوم ہوتا ے تو بیت المال سے کھانے پکانے کاسامان لے کر خود جاتے ہیں ، خود آگ جلاتے ہیں ، خود پکاتے ہیں ، بچوں کو کھلاتے ہیں اور خوش ہوکر آتے ہیں ، کس قدر فرصت تھی۔
اب آئیے ، تاریخ کے صفحات کو سمیٹتے ہوئے دار العلوم دیوبند تک آئیے!دار العلوم دیوبند میں ایک بڑا جلسہ ہورہا ہے ، علماء کرام کامجمع ہے، عوام کی بھیڑ آرہی ہے، زبردست انتظام ہے، مگر منتظم اعلیٰ حضرت مولانا رفیع الدین صاحب علیہ الرحمہ کو حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ دیکھتے ہیں کہ ہاتھ میں تسبیح لئے اطمینان سے ٹہل کر وظیفہ پڑھ رہے ہیں ، جیسے ان کو اس انتظام سے کوئی تعلق ہی نہیں ، حالانکہ تما م تر انتظام انھیں کا تھا ، حضرت تھانوی نے عرض کیا، حضرت اتنا بڑا انتظام ہے، اور آپ اس درجہ اطمینان سے مصروف تسبیح وتہلیل ہیں ، فرمایا میاں ! یہ تو ایک مدرسہ اور ایک جلسہ ہے ، ہم کوتو حکومت دیدو تو اسی طرح تسبیح پڑھتے ہوئے کام کرلیں گے۔ واقعی اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ا کی طاعت میں برکت ہمہ گیر ہوتی ہے۔
لیکن اس کی طرف کون آتا ہے، بظاہر اس میں لذت نفس نہیں ہے، اس لئے آدمی اس سے گھبراتا اور کتراتاہے، حالانکہ جس حال اور جس مشغلہ میں وہ ہے، وہ سراسر رنج وکلفت کا حال ہے۔ إن فی ذٰلک لعبرۃ لاولی الابصار۔ ( ستمبر ۲۰۰۲ء)
٭٭٭٭٭