آپسی خونریزی،معمولی معمولی باتوں پر جان لینے اور دینے کا مزاج اس میں تیزی سے ترقی کررہا ہے ، کہ اس کی زد میں مسلمانوں کی چھوٹی بڑی بیشتر آبادیاں آتی چلی جارہی ہیں ، جس جگہ جائیے بجائے اس کے کہ لوگ صلح وآشتی کی باتیں کریں ، ہمہ وقت جنگ وجدل اور ایک ودسرے کی ایذا رسانی کی بلا میں مبتلا ہیں ، سنجیدہ حضرات دم بخود ہیں کہ کسی کو کوئی سمجھائے تو کیونکر سمجھائے؟ نفسانیت کے آگے کوئی کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہے ، معاشرہ کی سب سے زیادہ تباہی ان باہمی خانہ جنگیوں کی وجہ سے ہے ، دو آدمی کسی معمولی بات پر لڑجاتے ہیں ، پھر پارٹیاں سجنے لگتی ہیں ، ہر پارٹی خود کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لئے اپنے اور فریِق مخالف دونوں کے مشترکہ دشمن کا سہارا لیتی ہے ، وہ دشمن کب چاہے گا کہ یہ لوگ باہم صلح وآشتی کے ساتھ رہیں ، فتنہ کی آگ بجھتی دیکھتا ہے تو ایک لکڑی پھینک دیتا ہے ، جو مال اپنی اور ملت کی فلاح وبہبود میں خرچ ہوتا ،و ہ مقدمات کی پیروی، ناجائز رشوتوں اور بالکل غلط قسم کی دعوتوں میں خرچ ہوتا ہے۔
اسلام کے بنیادی فرائض کا یہ حال ہے کہ مسجدوں میں چند لوگ نماز ادا کررہے ہیں ، اور ٹھیک اسی وقت اسی مسجد کے آس پاس بلکہ سامنے بہت سے لوگ بیٹھے گپیں ہانک رہے ہیں ، لڑرہے ہیں ، جھگڑ رہے ہیں بلکہ بعض ستم ظریف تو ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ بھی بجارہے ہیں ، جس آبادی میں آپ جائیں یہ مکروہ منظر دیکھ سکتے ہیں ۔ نماز کا ادا کرنا تو ایک طرف رہا ، جماعت اور مسجد کا احترام بھی قلوب سے رخصت ہوچکا ہے ، خود نہیں پڑھتے تو شرمندہ ہوتے ، سرنگوں رہتے ، شور وشغب نہ کرتے ، مگر یہاں تو معاملہ برعکس ہے ۔رسول اﷲ اکا ارشاد ہے : کل امتی معافی الا المجاھرین (بخاری شریف) ساری امت درگذر کی مستحق ہے ، سوائے ان کے جو علی الاعلان مبتلائے معصیت ہوتے ہیں ۔ غور کیجئے ، علانیہ فسق وفجور کا ارتکاب کرنے والے بلکہ اس پر فخر کرنے والے ، ہمارے معاشرے میں کس بہتات کے ساتھ ہیں ، بلکہ اب تو یوں ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی عظیم طوفان کھڑا ہوتا ہے ، یا دنیا میں کہیں کوئی ہنگامہ برپا ہوتا ہے جیسا کہ ابھی ماضی قریب میں ہوا تھا ، یا کوئی کھیل