ضرور ہوگا ، کہ مسلم معاشرہ میں ، افراد میں ، خاندانوں میں ، آبادیوں میں ، شہروں میں ، دیہاتوں میں ، دینی احساس بیدار ہوگا ۔ باہر فرقہ پرستی اور مذہب کے نام پر جارحیت کا عفریت منہ پھاڑے ہوئے کھڑا ہے ، تو کم ازکم اندرونی طور پر مسلمان اپنی ذاتی رنجشیں اور عداوتیں بھلاکر محبت واُخُوّت کی فضا بنانے کی کوشش کریں گے ۔ بین الاقوامی احوال ایسے ہیں کہ کوئی اسلامی ملک بھی بجز ہمدردی کے چند بول کے کوئی عملی قدم اٹھانے سے مجبور ہے ۔ اب تو بجز غیبی نصرتِ الٰہی کے اور کوئی سہارا نہیں ہے ۔ اب یہ امید بجا تھی کہ مسلمان خلوصِ قلب کے ساتھ اﷲ کے حضور رُجوع کریں گے ، اسلام کے بنیادی فرائض واحکام کی بجاآوری میں مستعد ہوں گے ، ایک مسجد کھوئی ہے ، تو اس کے عوض میں بہت سی وہ مسجدیں جو عین مسلمانوں کی آبادیوں کے درمیان رہ کر نمازیوں کو ترس رہی ہیں ، آباد ہوں گی ، کسب مال میں حلال وحرام کے درمیان رہ کر امتیازی نشان کھینچ دیا جائے گا ، حرام کے دروازے بند کردئے جائیں گے ،اور حلال پر اکتفا کیا جائے گا۔ مختلف نجی اور اجتماعی تقریبات میں اسرافِ بے جا سے احتراز کیا جائے گا ۔ مسلمان عرصہ سے ٹولیوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے باہم ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں ،ا ب کم ازکم ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر اپنے اپنے گریبان کی فکر کریں گے ، چند فروعی عقائد ومسائل کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کو ملت اسلام سے کاٹنے کے بجائے ، ایک دوسرے سے گلے ملنے میں پہل کریں گے ، اگر دینی علوم میں کمال واستحکام نہیں پیدا کرتے تو محنت وکوشش کرکے دنیوی علوم میں ہی میں مرتبہ بلند حاصل کریں گے۔
مگر کیا ایسا ہوا؟ یا اس کا کوئی حصہ نمایاں ہوا؟ اس سوال کا جواب بڑا دردناک ہے ، جی نہیں چاہتا کہ ان مسائل کوچھیڑاجائے ، کہ اپنا ہی زخم ہے ،اور اپنا ہی درد ہے ، لیکن احتساب بھی ایک فریضہ ہے ، تکلیف دہ سہی ، ناخواشگوار سہی ، مگر ہے ضروری۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حوادث وآفات کے بعد ہمارا معاشرہ زوال اور گراوٹ کی طرف کچھ اور تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے ، باہمی نزاع اور اختلاف ہی نہیں ، دنگے فساد ،