کرنی چاہئے ، انتظار چاہئے ۔ اﷲ تعالیٰ دعا ضرور قبول کرتے ہیں ،لیکن اس کے ظہور کا وقت مقرر فرمادیتے ہیں ، وقت پراس کا ظہور ہوگا۔ ہندوستان میں بابری مسجد شہید کردی گئی ، مسلمانوں نے بہت دعائیں کیں ، مگر اسے شہید کردیا گیا، وہ دعائیں کیا رائیگاں ھئیں ، نہیں ، اس کے عوض اسی سرزمین پر کتنی عالیشان مسجدیں وجود میں آگئیں ، کتنے لوگ نمازی بن گئے ، دین کی طرف متوجہ ہوگئے ،اور سزا وعذاب کی کیسی کیسی شکلیں خود اسی حیوٰۃ دنیا میں ظاہر ہوئیں اوراصل ظہور تو بروز قیامت ہوگا۔ طالبان ا ور امریکہ کے سلسلے میں کی گئی دعائیں اور بددعائیں رائیگاں نہیں گئیں ،دیر سویر ان کے اثرات ظاہر ہوں گے ، عجلت مت کیجئے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد اکو خطاب فرمایا: فَاصْبِرْ کَمَاصَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَاتَسْتَعْجِلْ لَھُمْ کَاَنَّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَایُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْا إ لَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ بَلٰغٌ فَھَلْ یُھْلَکُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ(سورہ احقاف:۳۵) پس (اے پیغمبر) تم ایسا صبر کرو جیسا کہ عالی ہمت رسولوں نے کیا ، اور ان کے حق میں ( عذاب کی ) جلدی نہ کرو، یہ جس دن اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے ، تو انھیں محسوس ہوگا جیسے دن کی ایک گھڑی دنیا میں ٹھہرے ، پس بدکاروں کے علاوہ اور کوئی ہلاک نہیں کیا جائے گا۔
پس اے مسلمانو! جلد بازی کرکے اپنے ایمان کو خراب نہ کرو ، ہمارے پیغمبر نے صبر کیا ، ہم کو بھی صبر سے وقت کاانتظار کرنا ہوگا۔ دیکھئے حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام نے فرعون کے ظلم وستم اور اس کی عداوت سے مجبور ہوکر جب بددعا کی تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ ( سورہ یونس:) فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول ہوچکی ہے ، سو تم ثابت قدم رہو، اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں ۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ دعا کی قبولیت کااعلان اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی فرمایا تھا ، مگر اس کا ظہور چالیس سال کے بعد ہوا تو اگر ایک اولوالعزم پیغمبر کی دعا کاظہور چالیس سال کے بعد ہوسکتا ہے ،تو کسی اور کو اتنی عجلت کیوں ہو کہ آج دعا کی اور آج ہی اس کا ظہور ہوجائے ، مایوس تووہ ہو جس کا ایمان اﷲ پر نہ ہو ، یوم آخرت پر نہ ہو۔