بعد پھر بہت جلد اندھیرا چھا جائے گا، اور قیامت قریب سے قریب تر ہوجائے گی ، تو دنیا کے اس ضعف اور بڑھاپے میں نیکی اور طاقت کی جو روشنی چمکے گی، وہ ایسی ہی ہوگی جیسے اندھیری رات میں جگنو چمکے ، انفرادی طور پر نیکیاں ہوں گی ،لیکن اجتماعی اور حکومتی پیمانے پر نیکیوں کا اگر ظہور ہوگاتو بس ایسا کہ دیر تک ان کی بقاء مشکل ہوگی۔
ہمارے ملک کی حدتک اس کی مثال ملاحظہ ہو، تیرہویں صدی ہجری کے نصف اول میں امیر المومنین حضرت سیّد احمد شہید قدس سرہ نے جہاد کی تحریک برپا کی ، اور اپنی روحانی تربیت سے ایسے مجاہدین تیار کئے جو قرون اولیٰ کے نمونے تھے ، انھوں نے صوبہ سرحد اور افغانستان کے بعض علاقوں پر مشتمل اسلامی حکومت قائم کی ، اور اسلامی حکومت کے برکات سے دنیا کومستفید فرمایا ، مگر پانچ چھ برس کے عرصے میں اس حکومت کاباقاعدہ نظام جو قائم ہوا تھا ، بکھر گیا۔ اس تحریک کے اثرات دیر تک چلتے رہے ، مسلمانوں میں ایک نئی دینی زندگی پیدا ہوئی ، شرک وبدعت کے اثراتِ بد سے مسلمانوں کو نجات حاصل ہوئی ، پھر اس بکھرے ہوئے نظام کو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ نے مرتب کرنا چاہا، اس کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھی ، مگر مرتب ہونے سے پہلے ہی ان میں بکھراؤ پیدا ہوگیا ، دوسرے ملکوں میں بھی خیر وسعادت کی تحریکیں چلیں ۔سوڈان میں مہدی سوڈانی کی تحریک چلی، طرابلس میں سنوسی مشائخ اٹھے ، مصر میں حسن البنّا نے ایک دینی تحریک کی داغ بیل ڈالی، مگر یہ سب تحریکیں کچھ عرصہ چل کر یا تو ختم ہوگئیں یا بعض کے راستے بدل گئے ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے اثرات باقی نہ رہے ہوں ، اس طرح کی ہر تحریک نے عالم اسلام میں ایک نئی بیداری پیدا کی ، انھیں تحریکات اور جدوجہد کی برکت سے مسلمانوں میں اسلام اپنی صحیح صورت میں باقی ہے ۔ اس دورِ اخیر میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی علیہ الرحمہ نے ایک دینی تحریک کا آغاز کیا اور اپنی خاص بصیرت کے تحت انھوں نے اسے حکومت اور سیاست سے دور رکھ کر مسلمانوں کے معاشرہ کی اصلاح کا بیڑاا ُٹھایا، یہ تحریک بہت کامیاب رہی اور اس کے اثرات بہت دوررَس ثابت ہوئے۔