ہے جاننے والا ، قدرت والا۔
یہ قانون قدرت اگر غور کیا جائے تو صرف انسانوں کے لئے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ پوری کائنات اور پوری حیات دنیوی اس قدرتی قانون کے دائرۂ اثر میں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاضْرِبْ لَہُمْ مَثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَائٍ اَنْزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَائِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْماً تَذْرُوْہُ الرِّیَاحُ وَکَانَ اﷲُ عَلیٰ کُلِّ شَـْٔیٍ مُقْتَدِراً (سورۃ الکہف: ۴۵) ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو، جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا، اس سے زمین کی پیداوار ملی جلی نکلی ، پھر آخر کار وہ چورا چورا ہوگئی ، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں ، اور اﷲ تعالیٰ پر چیز پر اقتدار رکھتا ہے۔
اسی قانون الٰہی کے مطابق خود مجموعی کائنات کا بھی حال ہے ، اس کا بھی ایک بچپن اور ضعف وناطاقتی کازمانہ تھا ، پھر قوت وشباب کازمانہ آیا ، اور اب جبکہ قیامت قریب ہے ، اس کے ضعف اور بڑھاپے کادور ہے ، جس طرح بڑھاپے میں انسان صحت وقوت سے دور طرح طرح کی بیماریوں اور ناطاقتیوں میں گھر جاتا ہے ، اسی طرح اس دنیا کا بھی اپنے بڑھاپے میں ہر طرح کی کمزوریوں اور بیماریوں یعنی برائیوں میں گھر جانا فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس کمزوری کے دور میں اگر کسی چیز اور طاقت کا ظہور ہوگا تو کسی خاص مصلحت سے ہوگا اورعارضی ہوگا۔ اب دنیا کی بساط لپٹنی والی ہے ، جلد ہی وہ وقت آجائے گا کہ بھلائی اور برائی کا حساب ختم کرکے دونوں کو الگ الگ جنت اور جہنم میں تقسیم کردیا جائے گا ۔ اب اگر سعادت کا عام ظہور اور غلبہ ہوگا تو پیغمبرانہ طاقت سے ہوگا،اور وہ بھی ان کی زندگی ہی تک ۔ چنانچہ جب دور اخیر میں ظلم اور شرکا انتہائی غلبہ ہوگا تو ایک طاقتور ہستی مہدی کی شکل میں ظاہر ہوگی ، ان کے دورِ ظہور میں ہی اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر اور ملکوتی صفات والے پیغمبر سیّدنا عیسیٰ ں آسمان سے اپنی مافوق الفطرت طاقت کے ساتھ تشریف لائیں گے ، اور وہ ’’دجال اکبر‘‘ کو اپنی ملکوتی طاقت سے ختم کریں گے ، اور پھر ایک طویل ہنگامہ کے بعد یاجوج ماجوج کا خاتمہ ہوگا۔عیسیٰ ں کی زندگی تک خیر وسعادت کادور رہے گا، ان کی وفات کے