یہ علماء ،یہ شاہین کا جگر رکھنے والے علماء ، عقاب کی نگاہ رکھنے والے علماء کہاں بنتے اور کہاں ڈھلتے ہیں ؟ یہ مدارس ہی ہیں جہاں سے ہر ضرورت کے وقت ایک سے ایک جگردار اور دوراندیش علماء پیدا ہوتے ہیں ، دنیا چاہے انھیں کتنا ہی رجعت پسندی اور بنیاد پرستی کا طعنہ دے، مگر دین اسلام کی حفاظت میں جان لڑادیتے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ جب تک یہ مدارس ہیں اور جب تک یہ علماء ہیں ، مسلمان کا جسم تو لہولہان ہوسکتا ہے ، اس کا مال تہس نہس ہوسکتا ہے مگر اس کی روح فنا نہیں ہوسکتی ہے۔ حکومت نے بھی یہ سمجھا اور اس نے سازشوں کا رُخ ادھر پھیر دیا۔ ایک غُل مچا ہوا ہے کہ مدارس کے اندر صرف دینی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ تخریب کی مشق کرائی جاتی ہے ، بغاوت کے لاوے پکائے جاتے ہیں ، اﷲ جانے کن کن تباہ کاریوں کا مرکز انھیں بتایا جاتا ہے، بے بنیاد الزام ! بے حقیقت تہمت! لیکن اس زور وشور سے انھیں پھیلایا جاتا ہے جیسے یہی حقیقت ہو، پہلے تو ملک کے سرحدی مدارس کو خطرے کا نشان بتایا گیا ، اب آگے بڑھ کر دار العلوم دیوبند کو ۔۔۔۔۔جو اس ملک میں جدوجہد آزادی کا بڑا مرکز رہ چکا ہے ۔۔۔۔۔ نشانہ بنایا جارہا ہے ، یوم آزادی کے موقع پر اس سے کچھ دنوں پہلے سے خاص دیوبند میں اس کے خلاف سرگرمیوں کے آثار پائے جارہے تھے ، پھر کچھ روز پہلے ٹرین میں ایک بم دھماکہ ہوا،جس میں دار العلوم دیوبند کا ایک طالب علم شہید ہوگیااور تین زخمی ہوئے ، اور پھر الزام انھیں پر رکھاگیا کہ اس دھماکہ کے مجرم یہی تھے ، حالانکہ بعد میں یہ بات غلط ثابت ہوئی ، لیکن جوبات آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اس کو محو کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ان حالات سے مسلمان بہت وحشت زدہ اور کبیدہ خاطر ہیں ، اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ قومی پیمانے پر انھیں ہراساں کرنے اور پھر مٹادینے کا منصوبہ ہر وقت زیر غور رہتا ہے ، بلکہ بروئے کار آتا رہتا ہے ، لیکن مسلمانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ؎
دشمن اگر قوی ست نگہباں قوی تر ست
دشمن اگر مضبوط ہے تو نگہبان اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔
مسلمان وحشت میں مبتلا نہ ہوں ، نہ کچھ خوف کریں ، مسلمان بزدل نہیں ہوتا ، اس