خیر ہے ، بلاشبہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں ۔
جب یہ ہے تو اﷲ کے بندے اپنے احوال وا عمال جیسا بناتے ہیں ، اسی طرح کی حکومت مسلط کی جاتی ہے ، اگر بندے اس لائق ہوتے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے تو اچھی حکومت لاتے۔
اگر واقعی اچھی حکومت درکا ہے تو رعایا میں ایمان داری، سچائی ، باہمی ہمدردی ، خیر خواہی کا چلن عام ہونا چاہئے ،ورنہ بدچلن رعایا بدچلن حاکم ہی کا انتظار کرے ، بالخصوص مسلمان جن کو یہاں کی حکومت سے سب سے زیادہ شکایت ہے۔الیکشن کی تمام زور آزمائیوں کا یہ بارہا تجربہ کرچکے ہیں ، نتیجہ ہمیشہ خلاف رہا ، ہر اگلا دن پچھلے دن سے مشکل آتا گیا ہے ، ان کے پاس تو زندگی کا ایک مکمل اور پاکیزہ دستور العمل ہے ، یہ اس دستور العمل کو سیکھتے اور اپنے اوپر اس کو نافذ کرنے کا حوصلہ رکھتے ، تو رنگ بدلتے دیر نہ لگتی ، مگر ہماری حالت نہایت افسوسناک ہے ، ہم دنیا میں دوہی چیز دیکھتے ہیں ،اپنا ہنر اور دوسروں کا عیب! جو کوئی ہنر دیکھتا ہے تو اپنی ذات تک محدود رہتا ہے ، اور اگر کوئی عیب تلاش کرنا شروع کرتا ہے تو دوسرے سے اس کی ابتداکرتا ہے ، اپنے کو ہمیشہ مستثنیٰ کرلیتا ہے۔
ہم حکومت کو کیا مخاطب کریں کہ اس کے ایوانِ بلند تک ہماری ضعیف آواز کی رسائی کہاں ؟ ہم غیر مسلموں سے کیا کہیں کہ ان کے سوچنے اور سمجھنے کاانداز تک ہم سے میل نہیں کھاتا، ہم اپنے بھائیوں کو یعنی اسلام کے نام لیواؤں کو پکار سکتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ یہ تو اپنے دستور العمل ( قرآن وحدیث ) کا پاس ولحاظ رکھیں ، علماء ومشائخ اس کے اولین ذمہ دار ہیں ، پھر عوام پر لازم ہے کہ ان علماء ومشائخ سے اپنے اعمال وکردار کی اصلاح کرائیں ،تاکہ خدا تعالیٰ راضی ہوں اور وہ اپنے اختیار سے حکومت میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا کریں ۔وما ذٰلک علی اﷲ بعزیز
( ستمبر ۲۰۰۱ء)
٭٭٭٭٭