اندازہ کرنے والے اسی سے اندازہ کرسکتے ہیں ۔
اب عام پبلک کی بات سنئے ! ان کے حالات کامشاہدہ کیجئے تو ہرشخص کا حال عجیب نظر آئے گا ۔ خود غرضی ، مفاد پرستی ، جتنا بس چل سکے دوسروں کو دبانا، طاقت کے بقدر ظلم وغیرہ، ایک عجیب افراتفری کا عالم ہے ، اس حالت میں کیا توقع خیر کی ہوسکتی ہے، اور کیا امید کی جاسکتی ہے کہ اس الیکشن کے طوفانِ بلاخیز سے کوئی اچھی حکومت ابھرسکتی ہے۔
ایک بزرگ سے کسی نے ظالم حکمراں نے شکایت کی ، تو انھوں نے ارشاد فرمایا کہ دویار ہم سفر تھے ، ایک نے کہا کہ اگر اﷲ تعالیٰ مجھے سلطنت عطا فرمائے تو ایسا عدل وانصاف کروں اور جود وکرم کی وہ داد دُوں کہ کبھی کسی نے سنا بھی نہ ہو۔ دوسرا بولا کہ اگر میں بادشاہ ہوجاؤں تو ہرروز ایک آدمی کو قتل کیا کروں ، اور ایسے ایسے ظلم ایجاد کروں کہ جو کسی کے خیال میں بھی نہ گزرے ہوں ! خدا کی قدرت! کچھ مدت کے بعد وہ ظلم دوست آدمی صاحب تخت وتاج ہوگیااور اپنے ارادہ ومنشا کے مطابق اس نے ایسے ایسے ظلم شروع کئے کہ تمام ملک میں شور قیامت برپا ہوگیا۔ اتفاقاً وہ عدل پسند یار بھی وہاں آنکلا، لوگوں نے اس کے روبرو واویلا کی کہ صاحب! بادشاہ آپ کا قدیم دوست ہے ، کچھ تم ہی سمجھاؤ کہ جورِ بے حد سے باز آئے ۔ اس نے تنہائی میں نصیحت کی کہ یار! کچھ تو خدا سے ڈر ، کیوں خلقت کو تباہ کرتا ہے، اس نے جواب دیا! ابے احمق! اگر اﷲ کو لوگوں پر رحم کرنا منظور ہوتا تو مجھ کو دولت وسلطنت کیوں دیتا ، تجھ ہی کو نہ بادشاہ بناتا ، کیا تجھ کو یاد نہیں کہ میں نے اس سفر میں کیا کہا تھا؟
اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہت خود سے نہیں برپا ہوتی ، خدا جس کو چاہتا ہے بادشاہت عطا فرماتا ہے، ارشاد ہے : قُلِ اَللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَائُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُاِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَئْیٍ قَدِیْرٌo
تم کہہ دو کہ اے اﷲ ، اے ملک کے مالک آپ جسے چاہتے ہیں غلبہ عطا فرماتے ہیں اور جس کو چاہتے ہین ذلت کے گڈھے میں گرادیتے ہیں ، آپ ہی کے ہاتھ میں سب