’’ اخلاق محسنی ‘‘ فارسی کی ایک کتاب ہے ، جو پہلے عام طور سے مدارس عربیہ کے نصاب میں داخل تھی ۔ اس میں مصنف نے ایک سبق آموز واقعہ نقل کیا ہے : کوئی بادشاہ شکار کے لئے نکلا ، جنگل میں اپنے ایک وزیر کے ہمراہ شکار کی تلاش میں دور تک نکلتا چلا گیا ، پیاس لگی تو پانی کی تلاش میں ایک گاؤں کے کنارے پہونچ گئے ، ایک بوڑھا کسان گنے کا رَس کولھوکے ذریعہ نکال رہاتھا ، بادشاہ نے پانی مانگا ، بوڑھا یہ تو نہ جان سکا کہ یہ کون لوگ ہیں ، لیکن چہرے بشرے سے تاڑ گیاکہ بڑ ے لوگ ہیں ، اس نے اپنی حیثیت کے مطابق عزت واکرام سے بیٹھایا اور ایک گنّا کولھو میں لگایا، اور ایک بڑے پیالے میں اس کا رَس بھرکر حاضر خدمت کیا ، بادشاہ نے دیکھا کہ ایک گنے سے اتنا زیادہ رَس نکلا ہے تو اس نے دل میں خیال کیا کہ میرے ملک میں کسان بہت خوشحال ہیں ، خوشحالی کے لحاظ سے ان پر ٹیکس کم لگایا گیا ہے ، اسے بڑھانا چاہئے ، یہ سوچ رہاہے اور رس پی رہا ہے ۔ اس کے بعد وہ بوڑھا پیالہ لے کر لوٹا کہ اب دوسرے ساتھی کے لئے رَس نکالے، اب کے اس نے کئی گنے کولھو میں لگائے تب پیالہ بھرکر رَس نکلا، اس نے پیالہ حاضر کیا ، بادشاہ اسے بھی دیکھ رہا تھا ، اسے تعجب ہوا ، اس نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ پہلے ایک ہی گنے سے اتنا رس نکلا کہ پیالہ بھر گیااور اب جانے کتنے گنے تم نے لگاڈالے تب پیالہ بھرا، کہنے لگا کہ وجہ تو اﷲ ہی جانے ، کھیت وہی ، بیج وہی ، گنا وہی ، پھر اﷲ ہی جانے اتنا فرق کیوں ہوا؟ مجھ کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بادشاہ کی نیت خراب ہوگئی ہے، بادشاہ کو ایک زوردار طمانچہ لگا ، اس نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیا، اور پھر اس سے ایک پیالہ رس مانگا ، اب کے پھر وہی ایک گنا اور وہی پیالہ رس سے لبالب !بادشاہ نے پھر اپنا سوال دہرایا کہ اب کیا حال ہے ؟ بولا حضور معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بادشاہ کی نیت درست ہوگئی ہے۔
یہ محض ایک قصہ نہیں ہے سراپا حقیقت اور پکی صداقت ہے ، تمام آسمانی کتابیں ، سارے جہاں کی تاریخ اس کی شاہد ہے ، یہ واقعہ جیسے کل سچا تھا آج بھی سچا ہے ، حکومتوں کے ارادے کہاں کہاں تک اثر انداز ہوتے ہیں ، اس کا ایک نمونہ اس مثال میں موجود ہے ،