اعلان فرمایا ہے کہ زمین وآسمان اور اس کے تمام خزائن اس کے ہاتھ میں ہیں ، اسی مالک نے ارادہ فرمایا اور کاروبار منداپڑگیا، پھر جب وہی ارادہ کرے گا تو کاروبار کھلے گا۔
ایسے حالات میں کیا یہی کرنے کے کام ہیں کہ، اﷲ کا نام لینے والے مشاعرے کرائیں اور ان پر اپنی جان اور مال خرچ کریں ، شاعروں کے پیچھے دوڑیں ، وہ شاعر جن کے پیچھے دوڑنے والوں کو اﷲ تعالیٰ گمراہ قرار دے۔ وَالْشُّعَرَائُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاؤُوْن، اور شاعر ان کے پیچھے وہی لوگ لگتے ہیں جو گمراہ ہیں ۔ کیا یہی کام رہ گیا ہے کہ مشاعروں کی راہ میں مسلمان اپنی جیبیں خالی کریں ، مسلمانوں کا سرمایہ دار اس میں بھاری بھاری چندے دے، اور کیا مسلمان نوجوانوں کے لئے یہ مشغلہ رہ گیا ہے کہ کاروبار مندا ہوگیا ہے ، معاشی کام بند پڑا ہے ، تو لاؤ کھیل کے میدان کو سجائیں ، غول کے غول اچھل کود کریں ، کرکٹ یا فٹ بال یا والی وال میں اپنے قیمتی اوقات کو اپنے دل ودماغ کوضائع کریں ، کچھ کھیلنے والے ، ان سے زیادہ کھیل کو دیکھنے والے، صرف تھوری دیر تفریح کے لئے نہیں ، تازگی ٔ طبع کے لئے نہیں ، مستقل مشغلہ بناکر کھیل کود میں اپنے معاشرہ کو تباہ کریں ، سنیما گھروں کو رونق ان سے ہو، کیا یہی کام رہ گیا ہے، اور اگر یہ نہیں تو آپسی لڑائی جھگڑے ، ایذا رسانیاں ، بدخواہیاں وغیرہ کریں ، کیا یہی وہ کام ہیں جن سے بند پڑا ہوا کاروبار کھل جائے گا، روزی کے بند دروازے وا ہوجائیں گے، تباہ ہوتی ہوئی معیشت آباد ہوجائے گی، کیا انھیں مشغلوں سے خَزَائِنُ الْسَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ کا مالک خوش ہوجائے گا اور وہ خزانوں کو ہم پر انڈیل دے گا، کلا ثم کلا ، کبھی نہیں ! ہرگز نہیں !
تو اے مسلمانو! یہ کیا ہورہا ہے؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟ کیا سربلندی کا راز اسی میں ہے ؟ اگر نہیں تو خدارا بتاؤ کہ ہمارا یہ راستہ کن لوگوں کا راستہ ہے ، کیا یہی نبی کا راستہ ہے ، کیا اسی پر اﷲ کے آخری پیغمبر نے ہم کو چلایاتھا؟ کیا نبی ا اورصحابہ ٔ کرام کے دور میں جب آفات کی یلغار ہوتی تھی ، تو وہاں بھی یہی طریقے اختیار کئے جاتے تھے۔
کام یہ نہیں ہیں ، کام یہ ہے کہ تباہی کے ان حالات میں آدمی سنجیدہ ہوجائے ، اپنی