غلطیوں کا احتساب کرے، کاروبار میں آدمی ایمان داری اور دیانت کو اختیار کرے، حال یہ ہے کہ معاشی مشغلہ اختیار کرنے والا ہر طبقہ بے عنوانیوں کا شکار ہے۔ کوئی بھی تجارت اور کوئی بھی صنعت، کوئی کاروبار ایسا نہیں ہے جس میں مختلف قسم کی بددیانتیوں کا عمل دخل نہ ہو ، کیا وہ سرمایہ دار طبقہ ہو، کیا وہ مزدور طبقہ ہو، اور کیا وہ ملازم پیشہ طبقہ ہو، جس کو جتنااور جہاں موقع ملتا ہے ، خوفِ خدا سے بے نیاز ہوکر اپنی ظاہری منفعت کو اختیار کرتا ہے، یہ کاروباری بد دیانتی جب اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہے تو اﷲ کافیصلہ بدلتا ہے، گناہ کی کثرت اور اس پر توبہ وندامت کا نہ ہونا کاروبار کو فیل کردیتا ہے ، یہ بددیانتی وہ ہے جس کی تلافی نفل نمازوں سے بھی نہیں ہوتی، لیکن آہ! کہ ہم نفل نماز کا نام کیا لیں ، یہاں تو فرائض غفلت کی نذر ہیں ، یہ اور ایک معصیت ہے،اور بڑی مصیبت ہے کہ اسلام کا نام لینے والا اپنے ہی ہاتھوں اسلام کی بنیاد کھود رہا ہے، مسجدیں شاندار بن گئی ہیں ، مگر نمازی نہ رہے، بالخصوص فجر کی نماز سے تو وہ غفلت ہے کہ ہر مسجد روتی ہے، یہی وقت ہے جب اﷲ تعالیٰ کی جناب سے روزی کے ، صحت کے ، مغفرت کے ، فیصلے ہوتے ہیں اور یہ سب چیزیں خدا سے چاہنے والا خواب غفلت میں پڑا رہتا ہے ، بھلا اس کا بھلا کیسے ہوگا؟
اس اقتصادی بدحالی اور کاروباری پریشانی کا علاج یہ ہے کہ ہرشخص اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرلے، بالخصوص وہ گناہ جس کا ضرر بندوں پر پڑتاہے، جیسے بددیانتی، بے ایمانی، جھوٹ، جھوٹا وعدہ، ناجائز ملاوٹ، لین دین میں دھوکہ ، قرض لے کر بے فکر ہوجانا، احسان کرکے جتلانا یا احسان لے کر نمک حرامی کرنا ، ان سے سچی توبہ کرے، انھیں ترک کرے، بقدر امکان اس کی تلافی کرے ، فرائض کی پابندی کرے، رات کے آخری حصے میں اٹھ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور گریۂ وزاری کرے، حساب کرکے پائی پائی کی زکوٰۃ ادا کرے، پھر انشاء اﷲ حالات بدلتے دیر نہیں لگے گی، ہاں گناہوں اورفضول خرچی میں مال برباد نہ کرے، اﷲ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے عافیت نصیب فرمائیں ۔ ( اگست ۲۰۰۱ء)
٭٭٭٭٭