مصرف میں نہیں لاسکتا ہے ، قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ، بالکل وہی مسئلہ ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے ، خود کھائے ، دوسروں کو کھلائے ، لیکن اگر اسے بیچے گا تو قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا، دوسرے کو دیدیا تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، دوسرا اسے فروخت کرے یا اپنے پاس رکھے ، اس کے حق میں وہ ہدیہ ہوگیا۔ بس اتنی سی بات ہے ، مگر شاید یہ بات گراں گذرتی ہو کہ عموماً عربی مدارس والے بطور چندہ کے وصول کرلیتے ہیں اور وہ اسے فروخت کرکے مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرتے ہیں ۔ شاید یہ بات کچھ لوگوں کے لئے باعث تکلیف ہو کہ اسے علماء مدارس کے واسطے کیوں لے لیتے ہیں ، اگر یہ بات ہے تو انھیں سوچنا چاہئے کہ مدارس قوم کی سب سے بڑی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ، دینی تعلیم کا سارا انحصار انھیں مدارس پر ہے ،اور انھیں سے مسلم قوم کی شناخت باقی ہے ، یہ نہ رہیں تو ’’ رام دھن ‘‘ اور ’’ عبد اﷲ ‘‘ میں فرق مٹ جائے گا، تو اگر قربانی کی کھال ایک اچھے مصرف میں لگ جاتی ہے تو اس سے مطمئن ہونا چاہئے نہ کہ ناخوش!
ایک صاحب نے رائے دی کہ قربانی کی کھال فروخت کرکے اسے گجرات کے مصیبت زدگان کو بھیج دیا جائے ۔ مصیبت زدوں کی مدد بہت اچھا کام ہے ، لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ جب قربانی کا مالک اسے بیچے گا تو یہ رقم واجب التصدق ہوجائے گی ، اسے کسی غیر مسلم کو نہیں دیاجاسکتا ، تو چرم قربانی کی رقم بھیج کر کتنی احتیاط کریں گے ، دوسرے یہ کہ ان ہنگامی مصیبت زدوں کے لئے تو ساری دنیا سے اتنی امداد آرہی ہے کہ انھیں از سر نو پورے طور سے آباد کیا جاسکتا ہے ، حکومت سے کہئے کہ اس آنے والی امدادکا صحیح انتظام کرائے ، وہاں تو ایسا سنا جاتا ہے کہ امداد تقسیم کرنے والے مالدارہوتے جارہے ہیں اور جو مستحق ہیں ان کے آنسو بھی نہیں پُنچھ رہے ہیں ۔ مدارس عربیہ کی امداد اور ان کے نظم ونسق کو چلانے کے لئے تو بس یہی محددو رقم زکوٰۃ کی، صدقہ وخیرات کی اور چرم قربانی کی ہوتی ہے ، اس کو اُدھر بھیج کر کیا چاہتے ہیں کہ مدارس بند ہوجائیں ، اور یہ عبادت والی رقمیں ایسے ہاتھوں میں منجمد ہوجائیں ، جن کی غرض زر اندوزی کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں ۔مسلمانوں کی طرف سے ایسی