ہوائی جہاز کی سروس گورنمنٹ کاایک ادارہ ہے ، اور گورنمنٹ اپنے انتظام میں ملک کے اندر اکثر اور ملک کے باہر تو تمامتر وہی سفر کراتی ہے ، اسے اختیار ہے کہ جس کے لئے جتنا چاہے مقرر کرے، طلبہ کے لئے ملک کے اندر ریلوے سفر کا کرایہ آدھا ہوجاتا ہے ، گورنمنٹ اس متعلقہ ادارہ کی کمی کو اپنے کسی اور خزانے سے پورا کرلے تو اس کا کوئی تعلق سفر کرنے والے سے نہیں ، سفر کرنے والے کے ذمہ جتنا کرایہ ہے حج کی فرضیت اس کے حساب سے ہوگی ، وہی اس کا اصل کرایہ ہے ،باقی دوسروں سے کیا لیا جاتا ہے اس کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے ، اس لئے عدم جواز کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی تاجر کا عام ریٹ مثلاً کوئی ہے ، لیکن اس نے غرباء ومساکین کے لئے طے کردیا ہے کہ ان سے نصف قیمت لی جائے ، لیکن دکان کا حساب پورا کرنے کے لئے باقی رقم وہ اپنے کسی دوسرے فنڈ سے ادا کردیتا ہے ۔ یہی حال یہاں ہے کہ حجاج سے کرایہ کی ایک خاص رقم جو دوسروں کے کرایہ سے کم ہے ، گورنمنٹ نے مقرر کردی ، اس کی وجہ سے جو کمی واقع ہورہی ہے اس کو گورنمنٹ نے اپنے کسی فنڈ سے ادا کردیا تو اس میں ہیرا پھیری کا جو بھی مسئلہ ہے اس کا تعلق گورنمنٹ سے ہے حاجی سے نہیں ۔اس طرح کے مسائل کو اخبار میں اچھالنے سے پہلے علماء سے تحقیق کرنی چاہئے ، یہ بڑی بے دانشی کی بات ہے کہ تحقیق سے پہلے ہی چیلنج اور ملامت کاانداز اختیار کرلیا جائے ، یہ قوم کے اور ملک کے حق میں بھلائی نہیں بلکہ مشکلات پیدا کرنا ہے۔
اخباری اہل قلم کی غیر ذمہ داری ملاحظہ ہو ، آواز ملک کے اداریہ نگار نے بلند آہنگی کے ساتھ فتویٰ صادر کیا ہے کہ جن لوگوں نے سرکاری سبسڈی کے ماتحت حج کیا ہے ،کسی کا حج گناہ سے خالی نہیں ہوا ، غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کا حج ہی نہیں ہوا ، اور دلیل کیا ہے ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً،اور اﷲ کے واسطے لوگوں پر حج فرض ہے ، جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اس کا مطلب اداریہ نگار نے یہ بتایا ہے کہ اپنی جائز اور حلال کمائی سے جس کے پاس اتنی رقم جمع ہوکہ وہ جاسکے اور آسکے ، اور اس درمیان اپنے گھر والوں کے خرچ کاانتظام کرسکے ، بس اسی کے لئے حج جائ