ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے ، تو اس کے ساتھ مذاق کا معاملہ کرتے ہیں ) رسول آئے تو ان کے ساتھ مذاق کا معاملہ کیا گیا ، اب یہ قدرتی طمانچے پڑتے ہیں انسان سنجیدہ نہیں ہوتا ، سطحی اور بے مطلب باتیں بناتا ہے۔
أَوْ تَحُلُّ قَرِیْباً مِنْ دَارِھِمْکے سلسلے میں مشہور عالم دین ، مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ :
’’ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ جس قوم اور جس بستی کے قرب وجوار میں کوئی عذاب یا آفت ومصیبت آتی ہے تو اس میں اﷲ جل شانہ کی یہ حکمت بھی مستور ہوتی ہے کہ آس پاس کی بستیوں کو تنبیہ ہوجائے اور وہ دوسروں سے عبرت حاصل کرکے اپنے اعمال درست کرلیں ، تو یہ دوسروں کا عذاب ان کے لئے رحمت بن جائے ، ورنہ پھر ایک دن ان کا بھی وہی انجام ہونا ہے جو دوسروں کا مشاہدہ میں آیا۔
آج ہمارے ملک میں ، ہمارے قرب وجوار میں روز روز کسی جماعت ، کسی بستی پر مختلف قسم کی آفتیں آتی رہتی ہیں ، کہیں سیلاب کی تباہ کاری ،کہیں ہوا کے طوفان ، کہیں زلزلہ کا عذاب، کہیں کوئی اور آفت، قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق یہ صرف انھیں بستیوں اور قوموں کی سزا نہیں ہوتی ، بلکہ قرب وجوار کے لوگوں کو بھی تنبیہ ہوتی ہے ، پچھلے زمانہ میں اگر چہ علم وفن کی ٹیپ ٹاپ نہ تھی مگر لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف تھا ، کسی جگہ اس طرح کا کوئی حادثہ پیش آجاتا تو خود وہ لوگ بھی اور اس کے قرب وجوار والے بھی سہم جاتے ، اﷲ کی طرف رجوع کرتے، اپنے گناہوں سے تائب ہوتے ، استغفار ، صدقہ وخیرات کو ذریعۂ نجات سمجھتے ، اور آنکھوں سے مشاہدہ ہوتاتھا کہ ان کی مصیبتیں بڑی آسانی سے ٹل جاتی تھیں ، آج ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ مصیبت کے وقت بھی خدا ہی یاد نہیں آتا اور سب کچھ یاد آتا ہے ، دنیا کے عام غیر مسلموں کی طرح ہماری نظریں بھی صرف مادی اسباب پر جم کر رہ جاتی ہیں ، مسبب الاسباب کی طرف توجہ کی اس وقت بھی توفیق کم لوگوں کو ہوتی ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ اس طرح کے مسلسل حوادث ہیں جن سے دنیا ہمیشہ دوچار رہتی ہے ۔( ج:۵، ص: ۲۰۶)
بڑی ہی سخت بات ہے کہ اﷲ کی طرف سے تنبیہ ہو، اور انسان پھر بھی ہوشیار نہ ہو ،