أَفَأَمِنَ أَھْلُ الْقُریٰ أَنْ یَّاتِیَھُمْ بَاسُنَا بَیَاتاً وَّھُمْ نَائِمُوْنَo أَوَأَمِنَ أَھْلُ الْقُریٰ أَنْ یَّاتِیَھُمْ بَاسُنَاضُحیً وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَo أَفَأَمِنُوْا مَکْرَ اﷲِ فَلَا یَامَنُ مَکْرَ اﷲِ إِلاَّ الْقُوْمُ الْخٰسِرُوْنَ(کیا ان آبادیوں میں بسنے والے اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر رات میں اس حال میں آجائے کہ وہ سورہے ہوں ، یا کیا انھیں اس بات کا اندیشہ نہیں ہے ، کہ ہمارا عذاب ان پر دن دوپہر آجائے جبکہ وہ کھیل کود میں مصروف ہوں ، کیا وہ اﷲ کی غیبی تدبیروں سے مطمئن ہوگئے ، اﷲ کی غیبی تدبیروں سے وہی مطمئن ہوتا ہے جو خسارے میں مبتلا ہو)
انسانو!دیکھو تمہارا مالک وخالق کیا کہہ رہا ہے ؟ اس کو سنو! یہی سچی بات ہے ، اس کے علاوہ سب سخن سازی ہے ، دل کا بہلاوا ہے ، اگلی داستانوں کو مت دیکھو ، یہ دیکھو کہ داستان بار بار کیوں دہرائی جارہی ہے؟ یہ سبب اپنے سے باہر مت تلاش کرو، اپنے اندر تلاش کرو ، مصائب وآفات کا سرچشمہ تمہاری بد اعتقادیاں اور بداعمالیاں ہیں ، زمینی حادثات کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں اور آسمانی فیصلوں کی بنیاد انسانی اعمال وخیالات بنتے ہیں ۔
اور یہ جو کچھ ہورہا ہے ، یہ اتفاقات نہیں ہیں ، اﷲ تعالیٰ کی مشیّت اور ارادوں کارفرمائیاں ہیں ، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : وَلَایَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِیْباً مِنْ دَارِھِمْ حَتّٰی یَاْتِیَ وَعْدُاﷲِ إِنَّ اﷲَ لَایُخْلِفُ الْمِیْعَادَ( اور ہمیشہ یونہی ہوتارہتا ہے کہ ان کفار کو ان کی کرتوتوں کی وجہ ایک نہ ایک صدمہ پڑتا رہتا ہے ، یا ان کی قریبی آبادیوں میں عذاب اترتا ہے ، اور یہ ہوتا ہی رہے گا ، یہاں تک کہ اﷲ کے وعدے کا وقت آجائے ، یعنی قیامت کا دن آجائے ، اور اﷲ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے)
اﷲ کے کلام کی صداقت آج بھی جگمگا رہی ہے ، اس ملک نے اور اس کے باشندوں نے اعتدال وانصاف کی کوئی حد ایسی نہیں چھوڑی ہے جس کو پامال نہ کرڈالا ہو ،اور کرتے ہی جارہے ہیں ، پس اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف عذاب الٰہی کا کوڑا برس ہی جاتا ہے ، مگر اس ملک نے اس سے کتنا سبق لیا ؟ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَایَاتِیْھِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِؤُنَ ( بندوں کے حال پر افسوس ہے ، جب بھی