اﷲ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء کا ،ان کی قوموں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : وَمَا اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَھْلَھَا بِالْبَاسَائِ وَالضَّرَّائِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَقَالُوْا قَدْ مَسَّ آبَائَ نَا الضَّرَّائُ وَالسَّرَّائُ فَأَخَذْنَاھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ ۔اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ اس کے نہ ماننے پر وہاں کے باشندوں کی ہم نے سختی اور تکلیف میں گرفت کی تاکہ روئیں گڑگڑائیں ، اور اپنی سرکشی سے باز آئیں ، پھر ہم نے اس تکلیف اور عذاب کے بجائے اتنی بھلائی عطا کی ، وہ راحت وآرام میں بہت بڑھ گئے اور کہنے کہ یہ دستور فطرت ہے ، ہمارے باپ دادوں کو بھی مصیبت وراحت کاسامنا کرنا پڑا تھا ، پھر ایسا ہوا کہ ہم نے انھیں ناگہانی طور پر پکڑا جس کا انھیں احساس تک نہ تھا۔
جاہلیت ہر زمانے میں یکساں رہی ہے ، آج بھی جب ارادۂ الٰہی کوئی عبرت انگیز طمانچہ لگاتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس سے سبق حاصل کیا جائے ، غافل اور نادان انسان پچھلی تاریخ کریدنے لگتا ہے ، اور یہ کہہ کر مطمئن ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، پہلے بھی ایسا بارہا ہوچکا ہے ، یہ تو فطرت کادستور ہے ، اس لئے گویا چونکنے کی ضرورت نہیں ہے ، ہم خواہ کچھ کرتے رہیں ایسا ہی ہونا ہے ، اس میں خدا کے قہر وجلال کا دخل نہیں ہے ، حالانکہ اگر وہ تلاش کرتا تو اسے معلوم ہوتا کہ پچھلے مصائب وشدائد بھی کسی نہ کسی نافرمانی اور سرکشی پر تازیانۂ عبرت ہی تھے ، پھر انسان جب سبق لینے سے انکار کرتا ہے تو قدرت کی طرف سے اچانک کوئی ایسی پکڑ آجاتی ہے کہ پھر زندگی کی ذرا بھی مہلت نہیں ملتی ، موجودہ حوادث میں عبرت آموزی کا پورا سامان موجود ہے ، مگر انسانوں کارخ اﷲ کی طرف ہونے کے بجائے کسی اور ہی طرف معلوم ہوتا ہے، جو لوگ مصائب کا شکار ہوئے ہیں وہ تو زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ، مال ومتاع کھوچکے ، آس پاس کی آبادیوں والے جو بچ گئے وہ سبق نہیں لے رہے ہیں ، تبصرے کررہے ہیں ، اخبار پڑھ کر ، ٹی وی دیکھ کر اپنے معلومات میں اضافہ کررہے ہیں اور جو اصل کام ہے اس سے غافل ہورہے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :