انھوں نے اﷲ کے مقابلہ میں کسی کو اپنا مددگار نہ پایا۔
ایک ہی علاج ہے کہ ظلم سے باز آئیں ، آپس کی نفرتوں اور عداوتوں کو متائیں ، ایک دوسرے سے محبت کریں ، قدرتی تازیانوں کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ ہمارا وزیر اعظم کہتا ہے کہ ’’ ہم عہد کریں کہ آئندہ ایسا حادثہ نہ ہوگا‘‘ اگر اخبار نے وزیر اعظم کی طرف یہ بات صحیح منسوب کی ہے ، تو انھیں عہد کرنا چاہئے کہ وہ ملک کے باشندوں میں کسی کودبانے اور کسی کو ابھارنے کا عمل بند کریں گے ، سب کے حقوقِ شہریت یکساں ہیں ، انھیں برقرار رکھیں گے ۔ عبادت گاہوں کو توڑنا ایک ظالمانہ عمل ہے ، ظلم کے ساتھ حکومت کی کشتی نہیں چلا کرتی ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ نہ وزیر اعظم میں یہ حوصلہ ہے اور نہ ان کی پارٹی میں اتنی وسعت ہے کہ اپنے علاوہ کسی کو برداشت کرلے ، قدرتی عذاب ایک طرف اپنی پوری ہولناکی کے ساتھ عبرت کا کوڑا بن کر برسا ہے ، اور دوسری طرف کچھ لوگ اعلان کرتے پھررہے ہیں کہ ابھی تو ایک ہی جگہ ظلم ہوا ہے ( اجودھیا اور بابری مسجد ) ابھی اور بھی ظلم وتشدد کے نشانے ہیں جن تک انھیں پہونچنا ہے ، کاش ظالموں کی آنکھیں کھلتیں ، بہرحال یہ حادثہ اکیسویں صدی کا شدید ترین حادثہ ہے ، اس سے سب کو سبق حاصل کرنا چاہئے ، خواہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو۔
بالخصوص وہ لوگ جنھیں اﷲ پر ایمان رکھنے کا شرف حاصل ہے ، وہ اجتماعی طور پر اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کریں ، وہ اﷲ کی طرف رجوع کریں ، اطاعت وعبادت سے اسے راضی کریں ، ان کا اشارہ ہوگا تو ہر نقصان کی تلافی ہوگی ، اور اس ایمان وانابت اور استغفار واطاعت کی حالت میں موت آئے گی تو آخرت کی زندگی جو اصل زندگی ہے سنور جائے گی، کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو خدا کی ناراضگی کا سبب ہو، نہ بڑے بول بولیں ، نہ کسی کی مصیبت پر خوشی محسوس کریں ، اﷲ کا غضب جہاں اترتا ہے تہس نہس کردیتا ہے۔ رب اغفروارحم وتجاوز عما تعلم إنک أنت الاعز الاکرم أللٰھم إنا نعوذبک من غضبک وعذابک یاارحم الراحمین۔ ( ذی قعدہ ۱۴۲۱ھ؍ فروری ۲۰۰۱ء)
٭٭٭٭٭