ایک فرشتہ کرتا ہے ، جو بڑا طاقتور ہے ، خلقۃً طاقتور ہے ۔ إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ ( سورۃ التکویر : ۱۹تا ۲۱) یہ قرآن کلام ( الٰہی ) ہے ، ایک معزز فرستادہ کا لایا ہوا ہے ، جو قوت والاہے، مالک عرش کے نزدیک رتبہ والا ہے، وہاں اس کی اطاعت کی جاتی ہے ، وہ صاحب امانت ہے ۔ یہ معزز فرشتہ روح امین ہے ، جبرئیل امین ہے۔
کس پر اترے ؟ وہ منتخب ہوا، کون اتارے؟ وہ منتخب ہوا۔ اب ماہ وسال کے وہ کون سے اوقات ہیں جن کو اس کلام عظیم سے مناسبت ہے ، تاکہ اس کا انتخاب ہو، اﷲ ہی پیدا کرتے ہیں ، وہی انتخاب فرماتے ہیں ، یَخْلُقُ مَایَشَائُ وَیَخْتَارُ، اﷲ نے سال کے بارہ مہینوں پر نظر ڈالی ، اور شعبان کے مہینے کو اپنے بندوں سے خاص مناسبت بخشی ، بندوں کے سب سے بڑے رازداں ﷺ نے اس راز کو پایا ، اور شعبان کو خصوصی عبادات ومعاملات کے لئے مختص فرمایا ، چنانچہ بکثرت احادیث میں آیا ہے کہ آپ اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھتے ، فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایک ایسا مہینہ ہے ، جس سے لوگ غافل ہیں ، حالانکہ اس ماہ میں رب العالمین کے حضور بندوں کے اعمال پہونچائے جاتے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل جب وہاں لیجایا جائے ، تو میں روزہ کی حالت میں ہوں ( نسائی ) حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہیں کہ حضرت کو شعبان کا روزہ بہت محبوب تھا ( احمد وطبرانی )حضرت انس ص ہی فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا شعبان ، رمضان کے اظہارِ عظمت کے لئے ۔ اس مضمون کی روایتیں بکثرت ہیں ، علامہ عبد العظیم بن عبد القوی المنذری نے اپنی جامع ترین کتاب ’’ الترغیب والترہیب ‘‘ کے کتاب الصوم میں ان میں سے اکثر کو جمع کردیا ہے ، ہم نے اس مضمون میں یہ حدیثیں انھیں سے اخذ کی ہیں ۔
ماہِ شعبان کی فضیلت کو بندوں سے مناسبت تھی ، اس لئے سیّد العباد ﷺ نے اس کا اہتما م کیا ، اس کے بعد جو مہینہ آیااسے خود رب العباد جل جلالہ نے اپنے لئے انتخاب فرمایا ۔