صفاتِ الٰہی کے ترجمان ہیں ، تو کلام الٰہی ، اﷲ تعالیٰ کے ذاتی اسماء وصفات میں ہے ، جو حق تعالیٰ کے تمام ذاتی اور صفاتی کمالات کا جامع ہے ، اور ظاہر ہے کہ کمالات خداوندی کی کوئی حد وانتہاء نہیں ہے ، تو جو چیز ان کمالات کا آئینۂ جامع ہے ، اس کے بھی کمال وجمال کی کوئی انتہاء نہ ہوگی ، پس کلام الٰہی اس کائنات کی عظیم جلو ہ گاہ ہے ، جس کے واسطے سے حق تعالیٰ کی ذات عالی اور صفات جلالی وجمالی کا مشاہدہ ہوسکتا ہے۔
پھر جب اس آئینۂ جمال وجلال کو اﷲ تعالیٰ نے زمین پر نازل کرنے اور بندوں کو اس سے مشرف فرمانے کاارادہ کیا، تو حق تعالیٰ نے تین انتخابات فرمائے ، کس پر اتارا جائے ؟ کون اسے لیکر جائے ؟ اور اس کے لئے مناسب وقت کیا ہوگا؟ کس پر اتارا جائے ؟ اس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اس ذات کا انتخاب کیا ، جس کو انھوں نے خود سارے عالم کے لئے رحمت بنایا ۔ بہترین قلب وطبیعت سے نوازا، خصوصی تہذیب وتربیت سے آراستہ کیا ، ہر آلائش طبعی وبشری سے پاک رکھنے کا اہتمام فرمایا ۔ پھر وہ شخصیت ایسی نکھر کر سامنے آئی کہ دنیا بول پڑی : ھٰذاھو الصادق الامین ، صدق وامانت انسانیت کا وہ عظیم ترین شرف ہے ، جس سے بڑھ کر کوئی شرف عام انسانوں کو نہیں حاصل ہوسکتا ۔ مکہ کی گلیوں میں چلتا پھرتا انسان ، خانۂ کعبہ کی دیواروں پر نگاہیں ڈالتاانسان ، حراء پہاڑی کی کھوہ میں غور وفکر کرتا ہوا بے چین انسان ، اس وقت بھی تمام عیوب اخلاقی وانسانی سے پاک تھا ۔ جب ابھی اس کا منتخب ہونا خلائق پر ظاہر نہیں ہوا تھا ۔ چالیس سال تک یہ انسان بہترین تعلیم وتربیت سے گزرتا ہوا پختہ ہوتا رہا۔ اب اس پر رب عظیم کا کلام عظیم اتر ناتھا ۔ اسے کون لائے ؟ تو اﷲ تعالیٰ نے پاک اور مقدس برگزیدہ جماعت ، جس کے بارے میں وہ خود گواہی دے رہے ہیں کہ : لَایَعْصُوْنَ اﷲَ مَاأَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ۔ اﷲکے حکم سے ذرا بھی نافرمانی نہیں کرتے ، اور جو حکم پاتے ہیں ٹھیک ٹھیک وہی کرتے ہیں ۔ اس مقدس ترین جماعت میں وہ منتخب ہوا جو صاحب امانت بھی تھا ، سب سے عظیم طاقت کا مالک بھی ، خداوند تعالیٰ کے قریب تر تھا ، عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُویٰ ذُوْ مِرَّۃٍ ( سورۃ النجم : ۵؍۶) اس وحی الٰہی کی تعلیم