کہ اس نے جہاں اپنی ذات ومعاشرہ سے باہر آفات ومشکلات کو ڈھونڈھا ہے اس سے زیادہ خود اپنے اندر تلاش کرنا چاہئے ، باہر کی دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت کچھ اندر کی دنیا کا ایک پرتو اور ظہور ہے ۔ ایک شخص جسمانی طور پر تندرست ہو، توانا ہو، بدن میں پہلوانوں جیسی طاقت بھری ہو ، چہرہ بارعب ہو، بازو بھرے بھرے ہوں ، تو دیکھنے والا خود مرعوب ہوجاتا ہے ، اگر اس کی نیت حملہ کرنے کی ہوگی تو وہ سو مرتبہ سوچے گا ، کہیں یہ مجھے دبا نہ لے ، میں اس کے مقابلہ میں ٹھہر سکوں گا؟ وغیرہ، لیکن اگر کوئی شخص دبلا پتلا مریل ہو، کھانا اس سے کھایا نہ جاتا ہو، چلنے میں پاؤں لڑکھڑاتے ہوں ، ہڈیاں نمایاں ہوں ، تو ہر کس وناکس بے خطر اس پر حملہ کرسکتا ہے ، کسی پر اس کا رعب قائم نہیں ہوگا۔
اسی طرح آج اس ملک میں عموماً اور مسلمانوں کے حق میں خصوصاً جو گورنمنٹ کاکردار اور طرزِ عمل ظاہر ہورہا ہے ، مسلمانوں پر دینی ، اقتصادی اور تعلیمی ہر اعتبار سے حلقہ کیا جارہا ہے ، ہم یہ کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں ، دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ بہت بری ہے ، اس کے عزائم خطرناک ہیں ،اور کوئی شبہ نہیں کہ ملک کی اور صوبہ یوپی کی موجودہ حکومت نہایت منحوس اور بے برکت ہے ، اس حکومت کے آنے کے بعد سے ملک کو مسلسل زمینی وآسمانی آفات ومصائب کاسامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ کبھی قحط ہے ، کبھی سیلاب ہے، کبھی زلزلہ ہے ، کہیں آگ لگتی ہے ، تو کہیں طوفان آتا ہے، پھر اخبارات میں ، جلسوں میں ، تقریروں میں ، کانفرنسوں میں حکومت کے خلاف بہت لکھاجاتا ہے ، بہت کچھ اسے برا بھلا کہاجاتا ہے ، تجویزیں پاس ہوتی ہیں ، نعرے لگتے ہیں ، اہل حکومت کو عرضداشتیں پیش کی جاتی ہیں ، یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اکثر تو ایسا ہی دیکھنے میں آیا کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے کچھ اور سنگین بن گیا۔
یہاں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جولوگ مصائب وآفات کا شکار ہورہے ہیں وہ اپنی اندرونی طاقت کا بھی جائزہ لیں ، کہیں خود ان کی اپنی کمزوریاں تو نہیں ہیں جن کی وجہ سے شکاریوں کو حوصلہ ملا ہے کہ جیسے چاہیں مارلیں ، کہیں ایسا تو نہیں ،حکومت کے جس ظلم