ذوق توحید الٰہی اور عبادت الٰہی سے براہ راست متصادم ہے، واقعہ یہ ہے کہ تصویر سازی کا آغاز توحید الٰہی کے ٹھیک برعکس ہوا ہے، اس لیے بے تکلف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ ذوق، اور اس ذوق کی تسکین کا سامان منشاء الٰہی کے عین خلاف ہے، اور آدمی پر فرض ہے کہ مجاہدہ کر کے اس ذوق کا رخ تصویر سازی اور یادگار بازی سے ہٹاکر حق تعالی کے ساتھ وابستگی میں لگائے، اس کی وجہ سے وہ گھاٹے میں نہ رہے گا، کیونکہ تصویریں کچھ دیر قائم رہتی ہیں ، پھر وہ بھی فنا ہو جاتی ہیں ، لیکن اﷲ تعالی کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے جو دوام حاصل ہوگا، اور جو بقاء نصیب ہوگا، اس کو کبھی زوال وفنا سے سابقہ نہ پڑے گا۔
اب تاریخ انسانی کا وہ انکشاف ملاحظہ فرمائیے، جسے میں نے عجیب وغریب کہا ہے، اور جو منشاء الٰہی کے ٹھیک بر عکس ہے۔
یہ معلوم ہے کہ انسانی وجود کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا ہے، نسل انسانی کے پہلے مرکزی بزرگ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ، پھر دوسری مرکزی شخصیت حضرت نوح علیہ السلام کی ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے انسانوں میں عبادت الٰہی کا طریقہ چلا اور وحدانیت کا عقیدہ قائم ہوا، اور عرصہ دراز تک برقرار رہا جب نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا، تو اس طریقہ میں انحراف آچکا تھا، اور توحید کے مقابلے میں شرک پھیل چکا تھا، اﷲ کے بجائے غیر اﷲ کی عبادت ہونے لگی تھی، نوح علیہ السلام نے اس کے خلاف سخت جد وجہد کی اور ساڑھے نو سو سال تک کی، مگر مشرکین ٹس سے مس نہ ہوئے بالآخر طوفان عظیم میں غرق ہوئے، تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام میں دس قرن کا فاصلہ ہے، یعنی ایک ہزار سال !
توحید سے شرک کی طرف یہ انحراف کیونکر ہوا؟ اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم میں سورۂ نوح کی تلاوت کیجئے حق تعالی ارشاد فرماتے ہیں وقال نوح رب انہم عصونی واتبعوا من لم یزدہ مالہ وولدہ الا خسارا۔ وقالوا لاتذرن ودا ولا سواعا ولا یغوث ویعوق ونسرا وقد اضلوا کثیرا۔ (سورہ نوح) نوح نے عرض کیا اے میرے