ماضی کے احوال کی یادگار کو باقی رکھنا ہے پھر اس کے حصول کے لیے جہاں وہ بہت سے طریقوں کو کام میں لاتا ہے، ان طریقوں میں سے ایک طریقہ تصویر سازی کا بھی ہے، تصویروں کے ذریعے آدمی اپنی ذات اپنے کام، اپنے متعلقات اور اپنے ماضی کے حالات کی یادگار محفوظ کرنا چاہتا ہے، ہر آدمی کو اپنی ان چیزوں سے محبت ہوتی ہے، مگر زمانہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے، اس سے تعلق رکھنے والی یہ چیزیں ماضی کے اندھیروں میں گم ہوتی چلی جاتی ہیں ، حافظہ کسی قدر یاد رکھتا ہے، مگر اس کے نقوش بھی دھندلاجاتے ہیں ، انسان چاہتا ہے کہ یہ چیزیں محفوظ رہیں ، تاکہ جب چاہے وہ انھیں دیکھ سکے، دوسروں کو دکھا سکے، خود لذت یاب ہو اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کرے، یہ سوچ کر اس نے ان چیزوں کو مجسمے کی صورت میں ، تصویری نقوش کی صورت میں محفوظ کرنے کی کوشش کی، قدیم زمانے سے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنی یادگاروں کو محسوس صورتوں میں باقی رکھنے کا اہتمام کرتا ہے۔
تو کیا یہ جذبہ اور یہ ذوق جو انسان کے اندر رکھا گیا ہے، علی الاطلاق اس ذوق کی تسکین کا ہر سامان درست ہے، اس باب میں جب شریعت الٰہی سے فتوی لیا گیا، تو معلوم ہوا کہ اس ذوق کی تسکین کی اس حد تک اجازت ہے، جب تک انسان کو دنیا میں جس مقصد سے بھیجا اور پیدا کیا گیا ہے، اس مقصد کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اور جہاں سے اس مقصد کو نقصان پہنچنا شروع ہو، وہاں سے ممانعت اور حرمت کی حد شروع ہوجاتی ہے۔
انسان کی پیدائش کا مقصد خود پیدا کرنے والے نے بہت وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون (سورہ ذاریات) میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، جب تک اس ذوق تصویر سازی اور جذبۂ یادگاری کا ٹکراؤ عبادت الٰہی سے نہیں ہوتا، اس کی اجازت دی جا سکتی ہے اور جہاں اس نے اس مقصد عبادت میں خلل ڈالا، وہیں اس پر حرمت کا حکم لگے گا، اور اس سے روک دیا جائے گا۔
تاریخ انسانی پر غور کریں گے، تو یہ عجیب وغریب انکشاف ہوگا کہ تصویر سازی کا