پروردگار، انھوں نے میری بات نہ مانی، اور ایسی چیز کے پیچھے چل پڑے ہیں ، جس میں انھیں مال اور اولاد کا گھاٹا ہی گھاٹا ہے، اور انھوں نے کہا کہ تم لوگ ہر گز ود کو نہ چھوڑنا، نہ سواع کو نہ یغوث ویعوق کو اور نہ نسر کو، اور انھوں نے بہتوں کو گمراہ کیا ہے۔
جلیل القدر مفسر قرآن، صحابی رسول، حبرالامت حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ نام جو حضرت نوح علیہ السلام نے گنائے ہیں ، یہ ان کی قوم کے نیک اور برگزیدہ لوگ تھے، جن سے لوگوں کو بہت محبت وعقیدت تھی، جب ان حضرات کا انتقال ہو گیا، اور قوم ان کی صحبت و مجلس سے محروم ہو گئی، قوم کو ان کی جدائی کا غم تھا، شیطان نے بعض لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ جہاں یہ حضرات بیٹھتے تھے، وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دئے جائیں ، تو ان کی صورت دیکھ کر تسکین رہا کرے گی، چنانچہ ایسا کر دیا گیا، اور ان مجسموں کو انہیں کے نام کے ساتھ موسوم کر دیا گیا، اس وقت وہ صرف سامان تسکین تھے، ان کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن اس نسل کے بعد جب دوسری نسل آئی، تو اس نے تسکین وتسلی کے حصول سے ترقی کرکے عبادت شروع کر دی، اس طرح خدا پرستی سے انحراف شروع ہو کر بت پرستی کی نوبت آگئی۔ (بخاری شریف تفسیر سورۂ نوح)
یہ تصویر سازی کی ابتدائی حالت ہے، اب یہ تصویریں خواہ جس مقصد کے لیے استعمال ہوں ، اپنے ابتدائی تصور سے الگ نہیں ہو سکتیں ، ان میں شرک کی نجاست اور آلودگی کی بدبو ضرور رہے گی، خواہ انھیں کتنا ہی خوبصورت اور پاک بنانے کی سعی کی جائے، اس لیے واقعہ یہ ہے کہ تصویر سازی ایمان کے خلاف ہے، غیرت ایمانی کے خلاف ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان والا اس سے دور ہی رہے، کیونکہ اس میں کفر وشرک کی بدبو موجود ہے۔
اس غیرت کا اظہار رسول اﷲ اکی سیرت طیبہ میں دیکھئے بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس ایک کپڑا پردے کا تھا، جسے انھوں نے حجرے کے ایک کنارے پر لٹکا رکھا تھا، نبی کریم ا نے دیکھا تو فرمایا کہ اسے ہٹاؤ۔ اس کی تصویریں میرے سامنے نماز میں آتی رہتی