جو آخری پیغام الٰہی بن کرحضرت محمدرسول اللہ اپر نازل ہوا ہے، وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور شریعت اسلامی کا موازنہ کرتے ہیں ، پھر وہ تقاضے، جو شریعت سے بر گشتہ کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں ، انھیں وہ رد کرکے شریعت کے احکام کی بقاء و تحفظ کو عزیز رکھتے ہیں اور یہ علماء کی بڑی ذمہ داری ہے کہ دین کا علم صحیح پیش کردیں ، اور عصر حاضر کے جو تقاضے اپنی تکمیل میں اس سے ٹکراتے ہوں ، انھیں بے تکلف رد کردیں ، اور اس میں کسی لعن و طعن کی پروا نہ کریں ، ورنہ یہ تقاضے دین اسلام کی جڑیں اکھاڑ دینے میں کسر نہ چھوڑیں گے۔
در حقیقت عصر حاضر کے جن تقاضوں کی دہائی دی جاتی ہے، وہ عصر حاضر کے تقاضے نہیں ، بلکہ نفسانیت، حب مال وجاہ اور شہوت بطن وفرج کی لامحدود ہوسناکیاں ہیں ، اور آج پوری دنیا انھیں سفلی اور ردی جذبات ورذائل میں جوجھ رہی ہے، نام چاہے، جتنا خوبصورت دیا جائے، مگر عصر حاضر کے جن تقاضوں سے دین اسلام کو مرعوب کیا جاتا ہے، ان کی تہ میں اصل جذبہ اور محرک یہی گھٹیا جذبے اور داعئے ملیں گے، اس لئے علماء کو خوب غور کر لینا چاہئے کہ جن چیزوں میں گنجائش نکالنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ان میں بہتیرے ایسی چیزیں ہیں کہ اگر انھیں سند جواز دیکر یا ہلکی سی گنجائش دے کر مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے، تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ ایک ایسا ماحول ومعاشرہ وجود میں آجائے گا، جس کو اسلام سے کوئی مناسبت نہ ہوگی۔ بس جو گناہ ہے، اسے گناہ ہی قرار دیا جائے، کرنے والا اسے گناہ سمجھ کر کرے، تو خود کو گنہگار سمجھے گا، اور شاید کبھی اسے احساس ہو، تو توبہ کی توفیق اسے ہو جائے گی۔ اور اگر اس گناہ کو سند جواز دے دی گئی، تو آدمی زندگی بھر گناہ گار ہوتا رہے گا۔ اور اسے کبھی توبہ نصیب نہ ہوگی۔
شریعت اسلامی میں جاندار کی تصویریں ناجائز ہیں ، یہ اجماعی مسئلہ ہے اب ہر وہ چیز جس میں تصویر کے بغیر چارہ نہ ہو، خواہ وہ ٹیلی ویژن ہو، سی ڈی ہو، وی سی آر ہو، اس کے جواز کے گنجائش نہ نکالی جائے، ورنہ آج کا بنایا ہوا سوراخ کل کو دہانہ بن کر رہے گا۔ لوگ ان امور میں مبتلا ہیں ، تو ناجائز سمجھ کر مبتلا ہوں ، ناجائز کو جائز نہ سمجھیں ، مبتلا تو لوگ ترک نماز میں