نیٹ، تو ایک ایسی ایجاد ہے کہ موجودہ دور کی انسانی ضرورت کا ایک خاصا حصہ اسی کے متعلق ہو کر رہ گیا ہے، ان چیزوں کااستعمال صرف دنیا دار گھرانوں اور معاشروں میں محدود نہیں رہ گیا ہے، جو گھرانے دیندار کہلاتے ہیں اور جن پروگراموں کو دین و مذہب کے عنوان سے برپا کیا جاتاہے، ان میں یہ چیزیں داخل ہو چکی ہیں ، بھلا جو چیزیں انسان کی ضرورت بن گئی ہیں ، انھیں ناجائز اور مکروہ کہنے کی ہمت کیسے کی جاسکتی ہے، اور اگر کوئی اپنی صلاحیت اور رسوخ فی العلم کی وجہ اس سلسلہ میں کچھ کہہ دے، تو اس کو درجنوں مثالیں دے کر خاموش کر دیا جائے گا۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ معاملہ اتنا ڈھیلا ڈھالا نہیں ہے، کہ جس چیز پر ضرورت کا لیبل چسپاں کردیا جائے، اور آدمی کی ہوسناکیاں جنھیں ضروریات زندگی میں شامل کردیں ، انھیں دین خداوند ی قبول کر ہی لے، مذہب اسلام کا ایک خاص عقید ہ اور نظریہ ہے، اس کا ایک پاکیزہ طریقۂ کار ہے، جو چیزیں اس کے موافق ہوں گی، انھیں تو قبول کیا جاسکتا ہے، اور جو امور اس کی ضد ہیں ، انھیں کسی رنگ میں پیش کیا جائے، وہ رد ہی کی جائیں گی۔
لوگوں میں ایک دستور ساہو گیا ہے، کہ ضروریات زندگی کا نعرہ لگا کر غلط چیزوں کے حق میں اسلام سے تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں ، کبھی یہ غیرت دلائی جاتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، اسے زندگی کی ہر دور کا ساتھ دینا چاہئے، پس جو کچھ دنیامیں وجود میں آجائے، دین اسلام اسے جھٹ سند قبولیت دیدے، ورنہ زندگی کی دوڑ میں اسلام پیچھے رہ جائے گا، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں ملک میں علماء دین نے عملاً اسے گوار کر لیا ہے، دین ملت کے ماہرین کے گھروں میں یہ چیزیں ضرورت بن کر داخل ہو چکی ہے، پس تم کب تک اسے ناجائز کہہ کر زمانہ سے بے خبری کا ثبوت دیتے رہو گے؟
ہاں یہ بھی ایک بڑا عجیب نعرہ ہے کہ دین و مذہب اور احکام شریعت کی خبر رکھنے والے عصر حاضر کے تقاضوں سے بے خبر ہیں ، یہ نعرہ لگانے والے شاید بے خبر ہیں کہ علماء عصر حاضر کے کسی تقاضے سے بے خبر نہیں ہیں ، مگر وہ اس دین کے اسرار و مزاج سے بھی با خبر ہیں ،