سہولتیں ہوئیں بھی، مگر نقصانات اور مشکلات کا تناسب بھی اتنا زیادہ رہا کہ بے ساختہ یہی سمجھ میں آتا ہے کہ و اثمہا اکبر من نفعھما ، ان کا گناہ فائدہ سے بڑھا ہوا ہے۔
ان ایجادات میں کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جن کے استعمال میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، جیسے نوع بنوع کی سواریاں ، بعض گھریلو سامان جیسے بجلی سے چلنے والے پنکھے، کولر فریج، فون وغیرہ و علی ہذا القیاس۔
کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے ناجائز اور حرام ہونے میں کلام نہیں ، جیسے فلمیں اور گانے بجانے کے آلات۔
کچھ ایجادات ایسی ہیں کہ بذات خود ان کی حرمت و حلت کا فیصلہ مشکل ہے، ان کی حلت و حرمت کا دارو مدار ان کے استعمال پر ہے، اگر وہ صحیح مصرف میں استعمال ہوتے ہیں ، تو وہ صحیح ہیں ، ورنہ غلط، اس کی مثال میں ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر کو پیش کیا جاسکتاہے، کہ اگر ریڈیو کو صرف خبریں یا مفید پرو گرام سننے کے لئے استعمال کیا جائے، تو مضائقہ نہیں ، اور گانے بجانے اور لہو ولعب کے پروگراموں کے لئے استعمال کیا جائے تو ناجائز اور حرام۔
ٹیپ ریکارڈر میں اگر قرآن کریم کی تلاوت، دینی مواعظ و مجالس اور مفید چیزیں محفوظ کی جائیں تو درست، اور اگر اس میں گانے بجانے ضبط کئے جائیں ، تو غلط۔
اسی طرح کی چیزوں میں بعض ایجادات نے خاصی پیچیدگی پیدا کردی ہے، ان میں استعمال کو مدار حکم بنائیں ، تو اس کی گنجائش نہیں معلوم ہوتی، اور اگر سرے سے انھیں ناجائز کہہ دیا جائے تو بہت سے فوائد سے محرومی ہوتی ہے، اس قسم کی مثال میں ٹیلی ویژن، وی ۔سی۔ آر، انٹر نیٹ، اور سی ڈی کو پیش کیا جسکتا ہے، موجودہ احوال میں ان امور کی شرعی حیثیت اور دینی تعلیمات کے لئے ان کے استعمال پر خوب بحثیں ہو رہی ہیں ، عام لوگ تو ان چیزوں کو دور حاضر کی زندگی کے لئے لازم قرار دیتے ہیں ، ان کے نزدیک کسی خوشحال، تعلیم یافتہ اور باعزت گھرانے اور معاشرے کا تصور ہی ٹیلیویژن کے بغیر نہیں ہوسکتا، کوئی جلسہ، کمیٹی، فنکشن، کوئی اجتماعی پرو گرام، بغیر ویڈیو کیسٹ اور سی۔ ڈی۔ کے مکمل ہوتا ہی نہیں ، انٹر