لعب اور گناہوں کے مواقع پر خرچ کرنا کا بے محابا جذبہ پیداہوگیا، سفر حج پر دوسرے گناہوں کے سفر کو ترجیح دی جانے لگی، روزہ کا نما بھولا، اور کھانے میں لذائذ و تنعمات کا اتنا اضافہ ہوا کہ اس کا شمار مشکل ہے، جیسے انسان کھانے ہی کے لئے پیدا ہوا ہے، اور جی رہا ہے، ایثار وہم دردی کی جگہ خود غرضی اور بے مروتی نے لے لی ہے، ان امور میں گناہوں کے کاموں کا بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اور یہ گناہ مسلمانوں کے معاشرہ اور دستور زندگی میں قطعاً نئے امور ہیں ، جن میں اسلام کا نام لینے والے مبتلا ہیں ۔
اس طرح کے گناہوں میں خیریت یہ ہے کہ انھیں گناہ ہی سمجھاجاتا ہے، انھیں نا جائز ہی قرار دیا جاتا ہے، ان کے جائز سمجھنے کا رجحان نہیں پایا جاتا، بلکہ ٹوکے جانے پر ایک طرح کی ندامت کا احساس ہوتاہے، لیکن سائنس کی ہمہ گیر ترقی کے اس دور میں بعض ایسی چیزیں آگئی ہیں اور آتی جا رہی ہیں ، جن کا مثبت یا منفی تعلق شریعت اسلامی سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے، یا ان کے عموم و شیوع اور کثرت استعمال کی وجہ سے مشتبہ بنا دیا گیا ہے، یہ چیزیں وقتاً فوقتاً زیر بحث آتی رہتی ہیں ، اس قسم کی چیزیں ابتدا تو جب سامنے آتی ہیں ، تو مخلص اور علم و تحقیق والے اصحاب رسوخ غور و فکر کرکے ان کا ایک حکم متعین کرتے ہیں ، پھر ان کی اور نئی نئی شکلیں نکلتی ہیں ، اور انکا عموم مزید بڑھتا ہے، تومزید سوالات اٹھنے لگتے ہیں ، مثلاً لاؤڈ اسپیکرایجاد ہوا، تو سوال پیدا ہوا کہ اسے نماز اور خطبے میں استعمال کیا جاسلتا ہے یا نہیں ؟ پھر جن چیزوں پر اقتدا صحیح ہونے کا مدار ہے، غور کیا گیاکہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے اس میں خلل تو نہیں ہوتا، پھر حضرات علماء اس نتیجہ پر پہونچے کہ نماز میں اس کا استعمال جائز ہے، مقتدی یا امام کی نماز اس سے فاسد نہ ہوگی، تاہم اس کے استعمال کے مقابلہ میں استعمال نہ کرنا ہی مناسب ہے، اسی طرح ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر ایجاد ہوئے، تو ان کے احکام دریافت کئے گئے، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز جاری ہوئے تو ان پر نماز پڑھنے کا مسئلہ پیدا ہوا، جسے بحمد اللہ حل کر لیا گیا، اس کے بعد ایجادات میں برق رفتاری آ گئی، طرح طرح کی چیزیں ایجاد ہونے لگیں ، جن سے بظاہر سمجھا گیا کہ انسان کی زندگی سہولیات سے مالا مال ہوگی، اور کچھ